”محض آپ کی خواہش پر وزیراعظم کو نااہل قرار نہیں دے سکتے“،

سپریم کورٹ نے وزیرا عظم کو نااہل قرار دینے کی تمام درخواستیں مسترد کر دیں، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مبینہ طور پر جھوٹ بولنے کے معاملے کو سیاسی قرار دیدیا، نواز شریف کا جھوٹ بولنے کا معاملہ ہائی کورٹ نے سن کر خارج کیا ،چیف جسٹس، پہلے آپ کو وزیر اعظم کو سزا یافتہ ثابت کرنا ہوگا پھر کارروائی ہوگی ،جسٹس جواد ایس خواجہ، کسی معاملے کا سیاسی ہونا عدالتی اختیار پر قدغن نہیں لگاتا ،جسٹس میاں ثاقب نثار، وزیر اعظم پر جھوٹ ثابت نہیں ہوتا،انہوں نے وزیرداخلہ کا حوالہ دیا، جسٹس آصف کھوسہ

منگل 9 دسمبر 2014 22:07

”محض آپ کی خواہش پر وزیراعظم کو نااہل قرار نہیں دے سکتے“،

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تاز ترین اخبار۔ 09 دسمبر 2014ء) سپریم کورٹ نے وزیرا عظم نواز شریف کو نااہل قرار دینے کی تمام درخواستیں مسترد کر دی ہیں اورپارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مبینہ طور پر جھوٹ بولنے کے معاملے کو سیاسی قرار دیدیا، یہ درخواستیں تحریک انصاف ،مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین سمیت دیگر کی طرف سے دائر کی گئی تھیں جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیئے ہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف کے حوالے سے جھوٹ بولنے کا معاملہ ہائی کورٹ نے سن کر خارج کیا ہے ۔

کورٹ آف لاء سے مراد وہ عدالت ہے جس میں اس طرح کے معاملات کی سماعت کی جا سکے۔آرٹیکل 62 اور63 میں بنیادی طور پر بڑا فرق ہے ۔عدالت کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ آرٹیکل 66 کے تحت پارلیمنٹ میں ہونے والی کارروائی کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا تو کیا آرٹیکل 62,63 کے تحت ہونے والی کارروائی مذکورہ آرٹیکل سے متاثر نہیں ہوگی۔

(جاری ہے)

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ہائی کورٹ نے معاملے کو سیاسی قرار دے کر درخواست خارج کی ہے ۔

سپیکر نے بھی فیصلہ دیکھ کر اسی بات کی تائید کی ہے ۔پہلے آپ کو وزیر اعظم کو سزا یافتہ ثابت کرنا ہوگا پھر کارروائی ہوگی ۔یہ فیصلہ درخواست گزار کو خود کرنا ہے کہ اسے کس عدالت میں جانا ہے جبکہ جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 245 کے تحت فوج تو ویسے ہی آئینی طور پر سیاسی معاملے میں ملوث ہو چکی تھی اگر پارلیمنٹ کے باہر بیٹھے لوگ دھاوا بولتے تو فوج ہی ان سے مذاکرات کرتی،یہ کیسے جھوٹ ہوگیا۔

ویسے بھی آرٹیکل 63 کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب کوئی رکن پارلیمنٹ سزا یافتہ ہو جائے یا اس کا جرم ثابت ہوجائے ۔کسی معاملے کا سیاسی ہونا عدالتی اختیار پر قدغن نہیں لگاتا یہ ہم نے از خود اپنے اوپر لاگو کی ہوئی ہے اور یہ امریکن قانون سے تصور لیا گیا ہے۔عدالتیں سیاسی ہونے سے ڈرتی ہیں اس لئے اس طرح کے معاملات کی سماعت نہیں کرتیں۔آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ ٹویٹ میں وزیر اعظم کا نہیں بلکہ حکومت کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔

رولز آف بزنس کے تحت پہلے اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ اس میں حکومت کس کو کہا گیا ہے ۔درخواست گزاروں کا کوئی بنیادی حق متاثر نہیں ہوا۔ہائی کورٹ میں 4 طرح کی رٹ دائر ہوتی ہیں تاہم درخواست گزار کی درخواست ان میں سے کسی رٹ میں بھی نہیں آتی جبکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس کہا کہ آرٹیکل 62،63 کا اطلاق بھی اسی طرح سے ہے جس طرح سے حدود آرڈیننس درخواست کرنے والے سوچ رکھتے تھے جس میں کوئی جھوٹا ثابت ہوگیا تو وہ ہر جگہ جھوٹا ہی قرار دیا جائے گا۔

وزیر اعظم پر جھوٹ ثابت نہیں ہوتا ۔وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کی تقریر اٹھا کر دیکھ لیں یہ سب چیزیں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے ثابت ہوتی ہیں۔ انہوں نے یہ ریمارکس منگل کے روز دیئے ہیں جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں جسٹس جواد ایس خواجہ،جسٹس میاں ثاقب نثار،جسٹس آصف سعید کھوسہ،جسٹس مشیر عالم،جسٹس انور ظہیر جمالی اور جسٹس سرمد جلال عثمانی پر مشتمل سات رکنی لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی ۔

درخواست گزار گوہر نوازسندھو نے دلائل میں موقف اختیار کیا کہ وزیر اعظم نواز شریف نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مبینہ طور پر جھوٹ بول کر آرٹیکل 62،63 کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے ان کو نا اہل قرا ردیا جائے ۔کورٹ آف لاء کا فیصلہ سپریم کورٹ نے ہی کرنا ہے کیونکہ ان کے نزدیک ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ ہی کورٹ آف لاء ہے جس کا آئین و قانون میں تذکرہ کیا گیا ہے ۔

وزیر اعظم نے فوج کے ثالث ہونے کے حوالے سے جو بیان دیا ہے وہ جھوٹا ہے جس کی بعد ازاں آئی ایس پی آر نے تردید بھی کی ۔اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ انگریزی ہونا ہمارے لئے عذاب بن گیا ہے کیونکہ جو الفاظ انگریزی میں بولے جاتے ہیں ان کے اُردو میں کئی طرح کے مطالب نکلتے ہیں ۔سمجھ میں نہیں آتا جس لفظ کو ثالث قرار دیا جارہا ہے حقیقت میں وہ کیا ہے ۔

سارا جھگڑا ہی انگریزی سے ہے ۔اس دوران دیگر ججز نے بھی مختلف سوالات کئے اور کہا کہ آئی ایس پی آر نے ٹویٹ بھیجی تھی اس میں کہیں بھی وزیر اعظم کا تذکرہ نہیں ہے اور نہ ہی فوج کی جانب سے کہاگیا ہے کہ وزیر اعظم نے کوئی جھوٹ بولا ہے ۔وہاں حکومت کا تذکرہ ہے اور حکومت سے مراد سیکرٹری داخلہ یا دیگر افسران بھی ہوسکتے ہیں ۔اس پر دوران سماعت تحریک انصاف کے رہنما اسحاق خاکوانی کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ عدالت نے آرمی چیف کے احترام کو صحیح طور پر نہیں سمجھا ہے اس پر جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ہم نے فوج کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی ۔

سیکرٹری دفاع اور آرمی چیف کے عہدوں میں فرق ہے اور دونوں کا اپنا ہی احترام ہے ۔دوران سماعت جسٹس ثاقب نثار نے درخواست گزار گوہر نواز سندھو سے سوال کیا کہ بتائیں کہ وزیراعظم کی تقریر کا کون سا حصہ جھوٹ پر مبنی ہے۔ جواب میں گوہر نواز سندھو کا کہنا تھا کہ ”ہم نے فوج کو ثالث نہیں بنایا“ جبکہ آئی ایس پی آر نے وزیراعظم کے اس بیان کی تردید کی۔

گوہر نواز سندھو نے موقف اختیار کیا کہ کوئی امیدوار ا?رٹیکل 62 اور 63 پر پورا نہ اترے تو اسے نااہل قرار دے دینا چاہیے، جسٹس ثاقب نثارنے کہا آپ آرٹیکل 62 اور 63 کی غلط تشریح کر رہے ہیں،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سوال کیاکہ کوئی امیدوار انتخابات کے وقت 62 اور 63 پر پورا اترتا ہو اور بعد میں پورا نہ اترے تو کیا کریں؟ گوہر نواز سندھو نے اس پر کہا کہ آرٹیکل 62 الیکشن سے قبل جبکہ 63 بعد میں لاگو ہوتا ہے، جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آٹیکل 62 کو 63 کے ساتھ ملا کر نہیں پڑھ سکتے۔

اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نیکہا کہ کوئی موثر دلائل دیں کہ وزیراعظم غیر قانونی طور پراپنے دفتر میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس ناصر الملک نے کہا اس کیس میں تین رکنی بنچ نے چھ سوالات اٹھائے،جس میں سب سے اہم سوال ہے کہ کیا آرٹیکل 66 کے تحت پارلیمنٹ میں ارکان کو مکمل استثنیٰ ہے،پہلے اس مرحلے کو عبور کر نا ہے کہ کیا آرٹیکل 66، آرٹیکل 62 اور 63 کو اووررائٹ کر سکتا ہے؟ محض آپ کی خواہش پر وزیراعظم کو نااہل قرار نہیں دے سکتے۔

عرفان قادر نے دلائل میں مزید کہا کہ اگر سپریم کورٹ دوہری شہریت ،سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سمیت کئی غیر متعلقہ اور بالواسطہ معاملات پر براہ راست مداخلت کر سکتی ہے اور از خود نوٹس لے سکتی ہے تو وزیر اعظم کے جھوٹ بولنے کے معاملے کو چھوٹا کیوں سمجھا جارہا ہے۔ عدالت کو چاہیے تھا کہ تو پہلے ہی اس پر از خود نوٹس لیتی اور اس ابہام کو ختم کرتی ۔

اس پر عدالت نے کہا کہ وہ غیر متعلقہ باتوں پر نہ جائیں اور آئین و قانون کی بات کریں ۔اس پر عرفان قادر نے کہا کہ اس آئین و قانون کی بات کریں جس میں چھوٹی سی چھوٹی خبر پر بھی از خود نوٹس لیا اور براہ راست کئی ارکان پارلیمنٹ کو دوہری شہریت کی وجہ سے نا اہل قرار دیا گیا ۔ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام پر عدالت ایک سال سے سماعت کررہی ہے تو اس حوالے سے سماعت کیوں نہیں ہو سکتی۔

اس پر عدالت نے ان سے پوچھا کہ ان کے نزدیک پارلیمنٹ کی کارروائی کو آرٹیکل 66 کے تحت حاصل استثنیٰ اور آرٹیکل 62،63 کے اطلاق سے کیا معاملہ متاثر ہوگا ۔اس پر عرفان قادر کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 66 براہ راست آئین کے تحت ہے جبکہ 62،63 کا معاملہ اس سے قدر مختلف ہے۔ آرٹیکل 225 پر بھی درخواستوں کی سماعت کی ہے اور محمود اختر نقوی سمیت دیگر لوگوں کو آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت براہ راست سنا ہے تو ہمارا معاملہ مختلف کیسے ہو سکتا ہے۔

عرفان قادر کا مزید کہنا تھا کہ آرٹیکل 66سبجیکٹ ٹو آئین ہے جبکہ اس لئے نا اہلی کے وقت 66 کے آرٹیکل کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ فوج نے سیاسی درجہ حرارت ٹھنڈا کرنے کی ہدایات کی تھیں اور یہ چوہدری نثار تسلیم کررہے ہیں۔جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 243 کے تحت مسلح افواج کی کمانڈ حکومت کے پاس ہے۔ان کے دلائل مکمل ہونے کے بعد مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کے وکیل سردار رازق ایڈووکیٹ نے عرفان قادر کے دلائل اختیار کئے جبکہ اٹارنی جنرل آف پاکستان نے جامع جواب داخل کئے۔

عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد تمام درخواستیں خارج کر دیں ۔واضح رہے کہ گوہر نواز سندھو نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی جس میں عدالت عالیہ نے ان کی درخواست کو خارج کرتے ہوئے وزیر اعظم کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران دیئے گئے بیان کو سیاسی معاملہ قرار دیا ۔عدالت نے ان کی درخواست بھی خارج کرتے ہوئے ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا۔