سپریم کورٹ نے کوٹ رادھا کشن میں اینٹوں کے بھٹے میں مسیحی جوڑے کو زندہ جلانے بارے پولیس رپورٹ کو نامکمل قرار دیتے ہوئے سختی سے مسترد کردیا

منگل 16 دسمبر 2014 16:42

سپریم کورٹ نے کوٹ رادھا کشن میں اینٹوں کے بھٹے میں مسیحی جوڑے کو زندہ ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 16 دسمبر 2014ء) سپریم کورٹ نے کوٹ رادھا کشن میں اینٹوں کے بھٹے میں مسیحی جوڑے کو زندہ جلانے بارے پولیس رپورٹ کو نامکمل قرار دیتے ہوئے سختی سے مسترد کردیا اور ایس پی تفتیشی کو حکم دیا ہے کہ واقعہ کے دوران ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکاروں کیخلاف فوجداری اور محکمانہ کارروائی عمل میں لائی جائے اور اس حوالے سے رپورٹ عدالت میں جمع کروائی جائے‘ واقعہ کے ذمہ دار دو مقامی مولوں ارشد بلوچ اور مولوی نورالحسن کو گرفتار کیا جائے‘ متاثرہ خاندان کو حکومت کی جانب سے دی گئی رقم اور دیگر اقدامات بارے رپورٹ 15 جنوری 2015ء کو عدالت میں پیش کی جائے‘ ڈی پی او قصور جواد قمر کو اطلاع ملنے کے باوجود واقعہ کی روک تھام کیلئے موثر اقدامات نہ اٹھانے پر ذاتی طور پر عدالت طلب کرتے ہوئے ان سے تحریری وضاحت بھی طلب کی ہے‘ عدالت نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ ایس پی تفتیشی کے مطابق وقوعہ کے وقت اے ایس آئی و دیگر مسلح پولیس اہلکار موجود تھے مگر انہوں نے مجمع کو منتشر کرنے کیلئے کوئی ہوائی فائر تک نہیں کیا‘ بظاہرہ واقعہ پولیس کی غفلت کا نتیجہ لگتا ہے‘ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کرنے والے پولیس اہلکاروں کیخلاف فوجداری اور محکمانہ کارروائی تک نہیں کی گئی جبکہ چیف جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیئے ہیں کہ پولیس کا کام لوگوں کی زندگیوں کا تحفظ کرنا ہے ۔

(جاری ہے)

اگر اس نے یہ کام نہیں کرنا تو پھر اس کا کیا کام باقی رہ جاتا ہے ۔پولیس اپنے پیٹی بھائیوں کو بچانے میں مصروف ہے ۔یف آئی آر میں نامکمل حقائق دیئے گئے ہیں۔ظلم کو دیکھنے والے بھی ظالم ہیں ایسے لوگوں کو بھی سزا ملنی چاہیے۔لوگوں کو متنفر کرنے والے مقامی مولویوں کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے جبکہ جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت اپنے سکیورٹی کے معاملات بہتر بنائے ۔

پہلے بادامی باغ کا واقعہ ہوا اب یہ واقعہ ہو رہا ہے ۔حکومت نے پولیس کے ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی تک نہیں کی ۔

کیا پولیس والے لاٹھیاں لیکر کھڑے تھے کہ مسلم ہونے کے باوجود ایک فائر تک نہیں کیا ۔انہوں نے یہ ریمارکس منگل کے روز دیئے ہیں جبکہ مقدمے کی سماعت چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔رزاق اے مرزا نے کہا کہ رپورٹ جمع کرادی ہے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایف آئی آر اور رپورٹ میں حقائق موجود نہیں ۔جسٹس گلزار نے کہا کہ مبینہ طور پر ملوث پولیس افسران کے نام بھی نہیں دیئے گئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جو ایف آئی آر درج کی گئی ہے اس کو دیکھیں اس میں کیا لکھا ہوا ہے کہ پولیس والوں پر کیا تشدد کیا گیا ہے ۔جسٹس گلزار نے کہا کہ رادھا کشن لاہور سے کتنا دور ہے پولیس بلانے میں کتنا وقت لگتا تھا ۔

رزاق اے مرزا نے کہا کہ محرم کا دن تھا اس لئے پولیس بھی وقت پر نہ آ سکی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس افسران کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی ۔جسٹس گلزار نے کہا کہ جو لوگ موجود تھے اور انہوں نے اس حوالے سے کارروائی نہیں کی وہ بھی ظلم کرنے والوں میں برابر کے ذمہ دار ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس والوں کے پاس اسلحہ تھا ۔انہوں نے ہوا میں فائر کیوں نہیں کئے ۔

لوگوں کو منتشر کیوں نہیں کیا گیا ۔دو افراد کی زندگیوں کا معاملہ تھا ۔پولیس نے کچھ بھی نہیں کیا ۔اگر پولیس ایکشن نہیں لے گی اس کا کام لوگوں کا تحفظ کرنا ہے ۔اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو پھر ان کا کیا فرض رہ جاتا ہے ۔جسٹس گلزار نے کہا کہ پولیس حکام کو کیا تمغہ دیا گیا ہے ۔پولیس کے خلاف مقدمہ درج کرائیں اور ان کے خلاف انضباطی کارروائی کریں۔

عدالت کو بتایا گیا کہ چار پولیس اہلکار موقع پر موجود تھے ۔لڑکی ابھی گھر میں تھی اس وقت بھی بتلا دیا تھا ۔ڈی پی او کے نوٹس میں تھا ۔عدالت نے کہا کہ ہم تفصیل میں نہیں جانا چاہیے۔ڈی پی او کو بلا لیتے ہیں ۔جسٹس گلزار نے کہا کہ جواب میں کچھ بھی موجود نہیں تھا ۔آئی جی مشتاق سکھیرا وہاں کیو ں گئے تھے ان کے بچوں کے لئے کیا کیا۔دس لاکھ روپے کہاں دیئے گئے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے نامکمل جواب دیا ہے یہاں تک نہیں لکھا گیا کہ یہ واقعہ کیسے پیش آیا ۔

ایس پی نے بتایا کہ ناظم مسیح کی وقعہ سے کچھ روز قبل وفات ہوگئی ۔نماز فجر کے وقت یہ واقعہ ہوتا ہے ۔تقریباً چھ بجے کا وقت تھا کچھ لوگ گاؤں سے آتے ہیں ان کے کوارٹرز میں آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآن حکیم بارے تفتیش کررہے ہیں ۔جوڑے کو پکڑ کر لاتے ہیں ۔

قریبی گاؤں سے مزید بندے منگواتے ہیں۔ایک گھنٹے میں پانچ سو سے زائد لوگ اکٹھے ہو گئے ۔شادی شدہ جوڑے کو تقریباً 8 بج کر20 منٹ پر جلایا گیا ۔سواسات بجے پولیس کو کال کی گئی ۔عدالت نے کہا کہ اس مہم کو کون چلا رہا تھا کون مولوی صاحبان تھے۔عدالت کو بتایا گیا کہ مولوی محمد حسین،ارشد بلوچ،نور الحق میں سے مولوی محمد حسین کو گرفتار کر لیا گیا ہے ۔

انہوں نے تقاریر بھی کی ۔مساجد میں اعلانات بھی کئے گئے ۔ان کی گرفتاری کی کوششیں جاری ہیں۔ایف آئی آر میں60 افراد کے نام تھے ۔بعد میں اس میں اضافہ کیا گیا۔138 افراد نامزد ہیں ۔عدالت نے کہا کہ آپ مولوی کو پکڑنے کے لئے صحیح کوششیں کیوں نہیں کررہے ہیں ان کو بھی گرفتار کریں کیا ان کا نام ایف آئی آر میں ہے۔جسٹس گلزار نے کہا کہ پنجاب حکومت نے اقلیتوں کے تحفظ بارے عام باتیں کی ہیں ۔

بچوں کو دیئے گئے فوائد کا بھی ذکر نہیں ہے۔ رزاق اے مرزا نے کہا کہ اس کا تذکرہ موجود ہے ۔وزیراعلی کو دی گئی رپورٹ میں سب تذکرہ موجود ہے ۔ان کو50 لاکھ روپے دیئے گئے ہیں ۔تحریک انصاف کی جانب سے مرکزی صدر اقلیتی امور ساجد پیش ہوئے تو عدالت نے انہیں سیاسی جماعت کا نام لینے سے روک دیا اور کہا کہ یہ سیاسی مقدمہ نہیں ہے ۔جماعت کا نام نہ لیں۔

بھٹہ مالک کے صادق ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ سب پولیس کی غفلت ہے۔ کالوں کا ڈیٹا بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ آپ تحریری طور پر درخواست دے دیں۔عدالت نے آرڈر میں کہا کہ پولیس کی جانب سے قتل بارے رپورٹ مانگی گئی تھی ۔پادری نے بھی رپورٹ جمع کروائی جس میں کوٹ رادھا کشن واقعہ بارے پوری تفصیل دی گئی ۔اے ایس آئی سمیت پولیس کے لوگ وقوعہ کے وقت موجود تھے جب یہ واقعہ ہوا ۔

اگرچہ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کوئی مداخلت نہیں کی کیونکہ ان کو دھمکی دی گئی تھی اور ان کے ساتھ بھی بدسلوکی کی گئی ۔یہ پولیس کی مناسب وجوہات نہیں ہیں کہ انہوں نے اپنا فرض ادا نہیں کیا ۔

ایس پی بھی پیش ہوئے کہ پولیس اہلکار وقوع کے وقت مسلح تھے اور انہوں نے مجسمع کو منتشر کرنے کے لئے ہوائی فائرنگ تک نہیں کئے ۔واضح رہے کہ ان کی زندگی بچانے کے لئے کوئی کوشش اور کردار ادا نہیں کیا ۔

حیرت کی بات ہے کہ ایسے پولیس اہلکاروں کے خلاف کوئی محکمانہ کارروائی تک نہیں کی گئی ۔ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جائے اور ان کے خلاف مجرمانہ غفلت کا مقدمہ درج کرایا جائے ۔ایس پی تفتیشی نے مزید بتایا کہ 3 افراد جن کے نام محمد حسین ،ارشد بلوچ اور مولانا نور الحسن ہیں۔لوکل مولوی ہیں کہ انہوں نے یہ سب کام کرایا ہے۔ ایک گرفتار ہو چکا ہے دو کی گرفتاری نہیں ہو سکی ہے ۔

اگلی سماعت پر باقی دو مولویوں کو بھی گرفتار کیا جائے اور رپورٹ دی جائے ۔بھٹہ مالک کی جانب سے بھی کونسل پیش ہوئے اور بتایا کہ انہوں نے پولیس چوکی کو واقعہ کے اطلاع دے دی تھی مگر انہوں نے کوئی کارروائی نہیں کی اور تحفظ واقعہ کی اطلاع دے دی تھی ۔مگر انہوں نے کوئی کارروائی نہیں کی اور تحفظ کے اقدامات بھی نہیں کئے۔انہوں نے حقائق بارے درخواست دی ہے۔

ڈی پی او قصور جواد قمر کو بھی اطلاع تھی کہ مسیحی جوڑے کو اس طرح کے خطرات ہیں مگر انہوں کوئی اقدام نہیں کیا وہ اگلی سماعت پر ذاتی طور پر پیش ہوں اور ایس پی تفتیشی اس واقعہ بارے تفصیلی رپورٹ دیں کہ واقعہ کیسے ہوا اور اس کی ذمہ دار کون تھے۔رپورٹ 15 جنوری2015 کو جمع کروائی جائے۔لاء افسر پنجاب نے بتایا کہ متاثرہ خاندان کو50 لاکھ روپے سمیت دیگر طرح سے مدد کی گئی ہے ۔عدالت نے کہا کہ آپ اس حوالے سے بھی رپورٹ دیں ۔جسٹس گلزار نے کہا کہ بادامی باغ واقعہ بھی ہو چکا ہے حکومت اس حوالے سے اپنے اقدامات کو مزید بہتر بنائے

متعلقہ عنوان :