5سال سے لوکل گورنمنٹ نہ ہونے کی وجہ سے ہر نوعیت کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے ، حید رعباس رضوی ،

ہر دور میں ریاستی اسٹیک ہولڈرز مفاہمتی میز پر جمع ہونے پر ناکام رہے ہیں ، ڈاکٹر مونس احمر

منگل 23 دسمبر 2014 21:23

کراچی(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 23 دسمبر 2014ء) ممبر قومی اسمبلی اور ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے رکن حید رعباس رضوی نے کہا کہ کراچی میں سماجی اور معاشی تنازعات کی بڑی وجہ وسائل کی نامناسب تقسیم ہے اور5سال سے لوکل گورنمنٹ نہ ہونے کی وجہ سے مختلف نوعیت کے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ وہ مہمان خصوصی کی حیثیت سے ان خیالات کا اظہار کراچی یونیورسٹی میں منعقد ایک روزہ ورک شاپ بعنوان ”پاکستان میں تنازعات کی روک تھام ، کراچی کیس اسٹڈی “سے اپنے خطاب میں کیا ، ورکشاپ کا انعقاد پروگرام برائے مطالعہ امن اور تنازعات کے حل شعبہ بین الااقومی تعلقات کے زیر اہتمام کلیہ سماجی علوم کے سماعت گاہ میں منعقدہ ہوا۔

۔ انھوں نے کہا کہ آئین کے تحت ریاست میں لوکل گورنمنٹ بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور اگر لوکل گورنمٹ نہیں تو ریاست نامکمل ہوتی ہے ۔

(جاری ہے)

رئیس کلیہ سماجی علوم ڈاکٹر مونس احمر نے کہا کہ ہر دور میں ریاستی اسٹیک ہولڈرزمفاہمتی میز پر جمع ہونے پر ناکام رہے ہیں اور اگر تنازعات کی موجودہ صورت اسی تسلسل سے جاری رہی تو ہماری سیاسی، سماجی اور اقتصادی صورتحال تباہ وہ برباد ہو جائے گی ۔

ڈاکٹر مونس احمر نے ورک شاپ کے آغازمیں سانحہ پشاور پر جی پی پی اے سی کا اظہار یکجہتی پر مبنی خط بھی پڑھ کر سنایا۔ ڈاکٹر مونس احمر نے کہا کہ کراچی کے اسٹیک ہولڈرزاپنی اپنی سطح پر کراچی کو حاصل کرنا چاہتے ہیں جس کے نتیجے میں تنازعات پیدا ہورہے ہیں ۔ سابق سینیٹر جاوید جبار نے کراچی میں بڑھتے ہوئے تنازعات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ پبلک ادارے فرسودہ ہو چکے ہیں اورہ موجودہ حالات کے چینلجز کامقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔

انہوں نے مختلف حوالے دیتے ہوئے کہا کہ نوجوان ، خواتین اور اقلیت خطرے کا شکار ہیں اور انکے تحفظ کی ضرورت ہے جبکہ دوسری طرف تعلیمی نظام ابتر ہے ، بعض عبادت گاہوں میں فرقہ واریت کا زور ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اعلیٰ طبقوں کی سیکوریٹی میں مصروف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مائیکروو اور میکرو سطح پر تنازعات کی روک تھام کیلئے موثر حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔

جاوید جبار نے ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر کراچی میں آباد ی کا تناسب اسی رفتار سے بڑھتا رہا تو 2030میں کراچی دنیا کا سب سے بڑا شہر قرار پائے گالیکن کراچی کے پبلک ادارے آبادی سے پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہیں گے ۔ انہوں نے کہ معاشرے سے تنازعات کے خاتمے کیلئے ہر نوجوان کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے الیکشن میں ووٹ کاسٹ ضرور کریں۔

پروفیسر ڈاکٹر فتح برفت نے کہا کہ کراچی متعد د سیاسی پارٹیوں کا گڑ ہے اور ہر پارٹی کراچی پر اپنا اثرو رسوخ قائم کرنا چاہتی ہے کیوں کہ ملک کی معیشت کا25%حصہ کراچی سے پیدا ہوتا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں ملکی شناخت کی جگہ مذہبی شناخت اہمیت اختیار کر گئی ہے اور پرتشدد واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بریگیڈرڈ ریٹائرڈ عبدالرحمن صدیقی نے ڈاکٹر مونس احمر کو ورک شاپ کے انعقاد پرمبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ ورک شا پ کے ذریعے تازہ معلومات نوجوانوں کو ملتی ہے اور وہ بہتر انداز میں حالات کا جائزہ لیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان آغاز سے ہی تشدد زدہ حالات کا شکار رہا ہے اور یہ تشدد کی فضاء پاکستان کے ہر طبقے میں سرایت کرچکی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عوام موجودسیاسی، اقتصادی اور معاشی فقدان کا حل ہڑتالوں میں ڈھونڈ رہے ہیں چنانچہ وہ فوراً سڑکوں پر آکر تشدد کو فروغ دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کراچی اسٹریٹ کرائم کی بڑھتی ہوئی واردات کا شکار ہے اور ہم اس قسم کے کلچر کے عادی ہو چکے ہیں۔

نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کی اسسٹنٹ پروفیسر ماریہ سیف الدین آفندی نے کہا کہ انسان کے پیدا کردہ تنازعات کو کنٹرول نہیں کیا گیا تو قوم پستی کا شکار ہوجائیں گی اور خطے کا پورا جغرافیا خطرناک حد تک بدنما ہوجائے گا۔ پروگرام آفیسر رینجنل سینٹر فار اسٹریٹجک اسٹیڈیز کولمبوسری لنکاآریانا راجسنگم نے نیپال اور سری لنکا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دنوں ممالک نے تنازعات کے دورسے نکلر مفاہمت کا راستہ اختیار کرلیا ہے تاہم پاکستان میں تنازعات کی روک تھام کیلئے کوئی موثر حکمت عملی نظر نہیں آتی ۔

پاکستان ویمن فاؤنڈیشن کی سربراہ نرگس رحمان نے کہا کہ 18ٹاؤن پر مشتمل کراچی دنیا کا خطرہ ناک شہر بن چکا ہے جہاں 2ملین شہری گینگ وار ، لینڈ مافیا ، لسانی فسادات کے خوف میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ انھوں نے کہا کہ لسانی فسادات کی صورت میں خواتین کواغواکرکے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ نرگس رحمان نے کہا کہ آپریشن ، عدالتی حکم ، حکومتی دعووں کے باوجود کراچی میں خون کی ہولی اس وقت تک جاری رہی جب تک دوسیاسی جماعتوں کے درمیان مصالحت طے نہیں پائی تھی ۔

ورک شاپ سے ڈاکٹر برنڈٹ ڈین نے تنازعات کی روک تھام میں تعلیم کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستان گلوبل پیس انڈیکس پر 157ویں نمبر پر کھڑا ہے جہاں تعلیم کے فروغ کیلئے اقلیت برداری کے کردار کو نظر انداز کیاجاتا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ تعلیم کے ماحول کو فروغ دے کر تنازعات کی فضاء اور تشدد کوختم کیاجاتا سکتا ہے تاہم یہ ضروری ہے کہ بچوں کو پرائمری اور سیکنڈری تعلیم دلاوئی جائے جس سے بچوں میں تشددکے رحجان میں کمی آتی ہے ۔