ملک میں سول جوڈیشری کی فعالیت کے دوران فوجی عدالتیں قبول نہیں کی جاسکتیں، آئینی ماہرین ،

دہشت گردی کے مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجتے ہوئے بہت احتیاط سے کام لینا ہوگا ،حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں کی مدد سے فوجی عدالتیں بنانے کا فیصلہ وسیع تر قومی مفاد میں کیا ہے تو اس کے اثرات بھی دور رس ہوں گے، ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام پر ملے جلے ردِ عمل کا اظہار

بدھ 24 دسمبر 2014 21:36

لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔24دسمبر 2014ء ) آئینی ماہرین نے ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام پر ملے جلے ردِ عمل کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ عدلیہ دہشت گردوں کو سزا دینے میں کئی اسباب کے باعث کامیاب نہیں ہوسکی تاہم سابق اٹارنی جنرل جسٹس ریٹائرد ملک محمد قیوم نے فوجی عدالتوں کے قیام کی کلی طور پر مخالفت کی ہے اور عدلیہ پر عدم اعتماد کا اظہار قراردیا ہے ۔

فوجی عدالتوں کے قیام کے فیصلے پرتبصرہ کرتے ہوئے ملک محمد قیوم نے کہا کہ فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ عدلیہ پر واضح اور کھلا عدم اعتماد ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ سوال حکومت کیسے فوجی عدالتیں قائنم کرسکتی ہے جبکہ سول عدالتیں کام کر رہی ہیں ؟ ”آن لائن“ سے گفتگوکرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکہ نے بھی دہشت گردوی سے نمٹنے کیلئے فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ کیا تھا مگر سپریم کورٹ نے اسے رد کردیا تھا ۔

(جاری ہے)

ملک میں سول جوڈیشری کی فعالیت کے دوران فوجی عدالتیں قبول نہیں کی جاسکتیں ، سابق ایڈووکیٹ جنرل اشتر اوصاف علی نے فوجی عدالتوں کے قیام کی حمایت کی تاہم انہوں نے ان عدالتوں مین مقدمات کی سماعت میں انتہائی احتیاط سے کام لینے پر زوردیا اور کہا کہ جھوٹے مقدمات اور لوگوں کو محض مقدمات میں پھنسانے سے بچاؤ کیلئے خصوصی اقدامات کی ضرورت ہوگی، اس ضمن میں وکلاء تنظیموں ، اور آئنی ماہرین کی مدد سے دوتین روز کے اندر تجاویز لیکر گائڈ لائن بنائی جاسکتی ہیں ۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ شہریوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسانے اور ان کے تحفظ کے ضمن میں پراسیکیوٹر پر بھاری ذمہ داری عائد ہوگی اور ابن کا اصل کردار بھی یہی ہوگا ، انہیں دہشت گردی کے مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجتے ہوئے بہت احتیاط سے کام لینا ہوگا ۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک جنگ کی حالت میں ہے اور پورا ملک دہشت گردوں سے جنگ کررہا ہے ، جنگی حالات میں ایمر جنسی اور خصوصی اقدامات اٹھانا ناگزیر ہوتے ہیں ،حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں کی مدد سے فوجی عدالتیں بنانے کا فیصلہ وسیع تر قومی مفاد میں کیا ہے تو اس کے اثرات بھی دور رس ہوں گے ۔

انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 245کے تھت عام شہریوں کے حقوق سلب ہوتے ہیں لیکن یہاں اس شق کا استعمال شہریوں کے حقوق سلب کرنے کےء بجائے ان کی دہشت گردوں سے جان بچانے کیلئے استعمال کیا جائے گا ۔فوجی عدالتوں کے قیام سے سول عدالتوں کی ناکامی کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے معاملے میں سول عدلتیں ہی نہیں انصاف کی فراہمی سے متعلق سارا نظام غیر موثر نظر آتا تھا ،اب دہشت گردوں سے نمٹنے میں آسانی ہو گی م دہشت گردوں سے نبردِآزما ہونے کیلئے ان کے آئینی حقوق کوسامنے نہیں رکھا جاسکتا تاہم عام شہریوں کے آئینی حقوق کا خیال رکھنا ہوگام، فوجی عدالتوں کا قیام صرف دہشت گردوں کیلئے عام لوگوں کیلئے ،لا ہو ہائیکورٹ بار کے سابق سیکرٹری فارق امجد میر نے فوجی عدالتوں کے قیام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا دہشت گردوں سے نمٹنے کیلئے سخت اقدام کی ضرورت تھی جو ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے تاہم فوجی عدالتوں کے قیام کے مسودے کا جائزہ لینے کے بعد اس کی آئینی اور قانونی حیثیت یا خامی و خوبی پر بات کی جاسکتی ہے جہاں تک فوجی عدالتوں کے قیام سے سول عدالتوں کی ناکامی کا سوال ہے تو صرف عدلیہ ہی نہیں بلکہ پورا نظام ہی ناکام ہوچکا ہے ، معاشرہ پوری طرح اس نظام کی ناکامی سے دوچار ہے۔

پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین عزیز اکبر بیگ نے فوجی عدالتوں کے قیام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں کے قیام ک کیلئے آئنی ترمیم کی ضرورت ہے اور چونکہ تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر س فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ کیہا ہے تو یہ ترمیم بھی اب کوئی مسئلہ نہیں ، پوری قوم اس وقت جنگ کی حالت میں ہے جس میں جنگی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے گئے ہیں اور یہ مخصوص لوگوں کیلئے استعمال ہوگا جس کی مدت بھی مخصوص ہوسکتی ہے۔

اس قانون کے تحت کسی جھوٹے مقدمے میں پھنسانے یا انتقام کا نشانہ بنانے کیلئے ملوث کردیے جانے کے سوال پر بات کرتے ہوئے عزیزاکبر بیگ کا کہنا تھا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ یہاں جھوٹی مقدمہ بازی کا رحجان ہے ، اس ضمن میں متعلقہ اداروں کو خصوصی توجہ دینا ہوگی ۔