افغان جنگ کی کامیابی سے متعلق امریکیوں میں شکوک وشبہات

ہفتہ 27 دسمبر 2014 13:28

افغان جنگ کی کامیابی سے متعلق امریکیوں میں شکوک وشبہات

واشنگٹن (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 27 دسمبر 2014ء) افغانستا ن میں تیرہ برس کی طویل جنگ کے خاتمے پر امریکی فوجی واپس وطن لوٹ رہے ہیں۔ اس عسکری معرکے کی کامیابی کے بارے میں نہ صرف امریکا بلکہ عالمی سطح پر شکوک وشبہات پائے جا رہے ہیں۔اتنی مہنگی قیمت چکانے کے بعد کیا امریکا کو افغان جنگ میں کامیابی حاصل ہوئی ہے، یہ سوال زبان زد عام ہے۔

امریکی تاریخ کے طویل ترین فوجی محاذ کے اختتام پر کامیابی کے ترانوں کے بجائے زیادہ تر افسوس اور تھکا دینے والا ایک احساس پایا جا رہا ہے۔ تیرہ سالہ اس جنگ کے دوران امریکا نے نہ صرف ایک ٹریلین ڈالر سے زائد کی رقوم خرچ کیں بلکہ اس کے 23 سو فوجی بھی مارے گئے۔امریکی فوجی کمانڈروں کا اصرار ہے کہ رواں برس کے اختتام پر نیٹو فوجی مشن کے بعد افغان سکیورٹی اہلکار ملک کی سکیورٹی کی ذمہ داریاں سنبھال لیں گے لیکن دوسری طرف کچھ حکام نے افغانستان میں عراق جیسی صورتحال سے بھی خبردار کیا ہے۔

(جاری ہے)

واضح رہے کہ عراق جنگ کے بعد جب امریکی فوجی وہاں سے واپس گئے تو امریکا کی تربیت یافتہ عراقی فوج جہادیوں کے سامنے ثابت قدم نہ ہو سکی۔ اس وقت عراق سے جنم لینے والی اسلامک اسٹیٹ نامی تحریک شام کے متعدد علاقوں کو بھی سر کر چکی ہے۔دریں اثناء افغان جنگ کی کامیابی سے متعلق کرائے گئے ایک حالیہ جائزے کے مطابق صرف تئیس فیصد امریکی فوجی ایسے ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ افغان جنگ میں امریکا کو فتح ملی ہے۔

اب امریکا کی ایک بڑی آبادی کا بھی یہ خیال ہے کہ یہ جنگ اس قابل نہیں تھی کہ اس پر اتنا زیادہ سرمایہ لگایا جاتا اور اتنی جانیں ضائع کی جاتیں۔یہ امر اہم ہے کہ جب 2001ء میں امریکا پر دہشت گردانہ حملوں کے بعد یہ جنگ شروع ہوئی تھی تو امریکا اور عالمی سطح پر اسے بھرپور حمایت حاصل تھی اور یوں محسوس ہو رہا تھا کہ کامیابی جلد ہی مل جائے گی۔ گیارہ سمتبر کے حادثے کو ایک ماہ بھی نہ گزرا تھا کہ سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے اپنے نشریاتی خطاب میں اعلان جنگ کرتے ہوئے کہا تھا کہ واشنگٹن حکومت کا مقصد افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنا ہے۔

اس جنگ کے ابتدائی کچھ ماہ میں امریکی اور اس کی اتحادی فوج کو بڑی کامیابی ملی۔ اس نے القاعدہ کے تربیتی ٹھکانے تباہ کر دیے، طالبان کی حکومت ختم کر دی اور وہاں حامد کرزئی کی جمہوری حکومت قائم کر دی گئی۔

اسی دوران جب امریکی فوج کو احساس ہوا کہ وہ اس معرکے میں کامیاب ہو گیا ہے تو اس نے عراق میں ایک نیا جنگی محاذ کھول دیا۔ لیکن اس دوران افغان طالبان دوبارہ اکٹھے ہوئے اور محفوظ ٹھکانوں میں انہوں نے از سر نو طاقت جمع کر کے افغانستان میں حملے شروع کر دیے۔

افغان جنگ کے نتیجے میں بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ شاید طالبان اب دوبارہ افغانستان میں حکومت قائم نہ کر سکیں لیکن وہ اتنے بھی کمزور نہیں ہوئے کہ کابل حکومت کو مشکلات سے دوچار نہ کر سکیں۔ امریکی تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ سکیورٹی تجزیہ نگار ویں ڈا فلباب براوٴن کہتی ہیں، ”اس وقت طالبان کے پاس وہ طاقت نہیں، جو ان کے پاس 2001ء میں تھی لیکن یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ان کا خاتمہ بھی نہیں ہوا ہے۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ افغان سکیورٹی فورس میں بھاری سرمایہ کاری فائدہ مند ثابت ہو گی لیکن جنوبی علاقوں سے امریکی فوج کے انخلاء کے بعد ان طالبان نے وہاں مقامی سکیورٹی فورسز کو پسپا کر دیا ہے۔ فلباب براوٴن کے بقول آئندہ برس افغانستان کے لیے انتہائی اہم ہو گا، ”اگر افغان سکیورٹی فورسز کو ناکامی ہوئی تو یہ اس بات کا اشارہ ہو گا کہ یہ جنگ جاری رہے گی کیونکہ اس صورت میں طالبان مزید دلیر ہو جائیں گے۔