حالت جنگ میں ہیں ، پشاور سانحے میں شہید ہونے والے ہر بچے کے خون کا حساب لینا ہم پر واجب ہے ،وزیر اعظم ،پوری قوم دہشتگردی کے خاتمے کو اپنی جنگ سمجھ کر میدان میں آئی ہے ،قومی اور عسکری قیادت کے اتحاد واتفاق کی فصیل میں کوئی لکیر پڑ گئی تو قومی نقصان ہوگا ،،ہمارے فوجی جوانوں کی گردنوں کو کاٹ کر لاشوں کو جیپ سے نیچے پھینکا گیا ،گردنوں کو فٹبال بنایا گیا ، اب ہم یہ برداشت نہیں کرینگے ، خدانخواستہ ان چیزوں کونہ روکا تو پھر شاید ہم تمام معاملات کو روکنے کے قابل نہیں رہیں گے ، قوم کی پوری توجہ دہشتگردی کے خاتمے پر مرکوز رہنی چاہیے ،انشاء اللہ ہماری منزل دور نہیں ،وزیر اعظم نواز شریف کا سینٹ سے خطاب

بدھ 31 دسمبر 2014 19:34

حالت جنگ میں ہیں ، پشاور سانحے میں شہید ہونے والے ہر بچے کے خون کا حساب ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔31دسمبر۔2014ء) وزیر اعظم محمد نواز شریف نے واضح کیا ہے کہ پشاور سانحے میں شہید ہونے والے ہر بچے کے خون کا حساب لینا ہم پر واجب ہے ، ،حالت جنگ میں ہیں ،پوری قوم دہشتگردی کے خاتمے کو اپنی جنگ سمجھ کر میدان میں آئی ہے ،قومی اور عسکری قیادت کے اتحاد واتفاق کی فصیل میں کوئی لکیر پڑ گئی تو قومی نقصان ہوگا ،ہم عزم کر چکے ہیں دہشتگردی کو پروان نہیں چڑھنے دیا جائیگا ،16دسمبر کے بعد سے حکومت دن رات کی تمیز کئے بغیر قومی ایکشن پلان پر عملدر آمد کا نظام وضع کررہی ہے ، دہشتگردوں کو کیفر کر دار تک پہنچانے کیلئے قانون و انصاف کے فوری نظام پر کام مکمل کیا جارہا ہے ، قومی ایکشن پلان کی پارلیمنٹ خود منظوری دے گی ،کسی مسلح جتھے کو کام کر نے کی اجازت نہیں ہوگی ،کوئی گروہ طاقت کے زور پر اپنے نظریات مسلط نہیں کر سکے گا کالعدم تنظیمیں اپنے آپ کو حقیقی معنوں میں کالعدم سمجھیں انہیں کسی بھی شکل میں کام کر نے کی اجازت نہیں ہوگی ،میڈیا کی آزادی کسی بھی جمہوری ریاست کی ضرورت ہے ہر قیمت پر آزادی کا تحفظ کرینگے ،دہشتگردی کے فروغ دینے کی اجازت نہیں ہوگی ،سب کچھ قانون اور آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کررہے ہیں ، اس آئین اور قانون کا کیا فائدہ ہوگا جو پاکستانی عوام کی زندگیوں کا تحفظ نہ کر سکے ،قانون اور آئین سے انحراف کر نے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، ہمارے فوجی جوانوں کی گردنوں کو کاٹ کر لاشوں کو جیپ سے نیچے پھینکا گیا ،گردنوں کو فٹبال بنایا گیا ، اب ہم یہ برداشت نہیں کرینگے ، خدانخواستہ ان چیزوں کونہ روکا تو پھر شاید ہم تمام معاملات کو روکنے کے قابل نہیں رہیں گے ، قوم کی پوری توجہ دہشتگردی کے خاتمے پر مرکوز رہنی چاہیے ،انشاء اللہ ہماری منزل دور نہیں ۔

(جاری ہے)

بدھ کو سینٹ میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ50سے زائد پاکستانیوں کا خون دہشتگردی کے ناسور کی بھینٹ چڑھ گیا ہمیں تسلیم کر نا ہوگا کہ اس طویل عرصے کے دور ان دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے کوئی حکمت عملی نہیں بن سکی ہماری حکومت نے ذمہ داری سنبھالتے ہی اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کیا اور ٹھوس حکمت عملی بنانے کیلئے اقدامات کئے ہیں معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کر نے کیلئے کوششیں ناکام ہوئیں جس کے بعد فیصلہ کن آپریشن ضرب عضب کا فیصلہ کیا گیا ضرب عضب اسی عزم کا نتیجہ تھا کہ دہشتگردوں کو کاری ضرب لگائی جائے اور اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ انتہا پسندی ، دہشتگردی اور فرقہ واریت جیسے فتنوں کی پرورش کر نے والے تمام راستوں کو بند کر دیا جائے انہوں نے کہاکہ 16دسمبر کے سانحے کے فوراً بعد سیاسی قائدین کو دعوت دی کہ آئیے کہ ہم سب ملکردہشتگردی کے خلاف قومی لائحہ عمل تشکیل دیں وزیر اعظم نے کہاکہ انتہائی مختصر نوٹس پر ساری قیادت پشاور میں جمع ہوئی جس میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ ، چوہدری اعتزاز احسن موجود تھے ایک خصوصی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا اور کہا گیا کہ ایک ہفتے کے اندر خصوصی کمیٹی ایک نیشنل ایکشن پلان بنانے کی ذمہ داری قبول کرے اور یہ ذمہ داری سونپی گئی اور کام مکمل کیا گیا بہت سارے ٹی وی ، اخبارات میں لکھا گیاکہ معاملہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا اور کمیٹیوں کا حشر ہم سب نے دیکھا اور یہ کمیٹی کچھ نہیں کریگی اور کمیٹی نے ایک ہفتے میں اپنا کام مکمل کیا 24دسمبر کوسیاسی وعسکری قیادت نے ایکشن پلان کی منظوری دی تمام لیڈر شپ موجود تھی میں لیڈر شپ کاشکر گزار ہوں سارا دن پلان پر خرچ کیا 10گھنٹے بیٹھے رہے رات کو متفق ہو کر اٹھے اور بیس نکاتی پلان کی سب نے منظور ی دی اس کے بعد اجلاس ختم ہوا یہ اس امر کی دلیل ہے کہ معاملے کی سنگینی کو قومی قیاد ت نے محسوس کیا اور پھر کامل اتفاق رائے سے اس جذبے کا اظہار ہوا کہ دہشتگردی کے مکمل خاتمے کیلئے ریاست پوری قوت کے ساتھ آگے بڑھے وزیر اعظم نے کہاکہ قوم سے اپنے خطاب کے دور ان بھی کہا تھا کہ اور ایک بار پھر دہرانا چاہتا ہوں کہ ہم حالت جنگ میں ہیں میں نے کہا تھا کہ غیر معمولی حالات غیرمعمولی اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں کیا یہ غیر معمولی حالات نہیں کہ پھول جیسے معصوم بچوں کو گولیوں سے چھلنی کر دیا جاگیا کیا یہ غیر معمولی حالات نہیں کہ ڈیڑھ سول کے لگ بھگ بچے اپنی کتابوں اور بستوں سمیت خون میں نہلادیئے گئے کیا یہ غیر معمولی حالات نہیں کہ اپنے بچوں کے بارے سہانے خواب دیکھنے والی مائیں عمر بھر کیلئے اپنے بچوں کی راہ دیکھتی رہیں کیا یہ غیر معمولی حالات نہیں کہ ہماری عبادت گاہیں محفوظ ہیں اور نہ ہی درس گاہیں محفوظ ہیں اور نہ ہی تنصیبات محفوظ ہیں کیا یہ غیر معمولی حالات نہیں کہ ہماری محب وطن اقلتیں جنونی دہشتگردوں کا نشانہ بننے لگیں کیا یہ غیر معمولی حالات نہیں کہ ہمارے کھیل کے میدان سونے ہو جائیں کیا یہ غیر معمولی حالات نہیں کہ اپنے مذہب اور آئین سے بغاوت کر نے والے دہشتگرد پوری قوم یرغمال بنا لیں وزیر اعظم نے کہاکہ ہم یہ سب کچھ نہیں ہونے دینگے پاکستانی نے ذمہ داری ہم سب کو سونپی ہے جو ہم یہاں بیٹھے ہیں ہم اللہ کی مدد سے اس ذمہ داری کو پورا کرینگے ہمارے معصوم شہیدوں نے اپنے لہو سے جو چراغ روشن کئے ہیں ہم ان چراغوں کی لوبجھنے نہیں دینگے ہر بچے کے خون کا حساب لینا ہم پر واجب ہے سیاسی و فوجی قیادت سمیت پوری قوم اس عہد میں شریک ہے کہ ہم یہاں دہشتگردی کو پروان نہیں چڑھنے دیا جائیگا 16دسمبر کے بعد سے حکومت دن رات کی تمیز کئے بغیر قومی ایکشن پلان پر عملدر آمد کا نظام وضع کررہی ہے مسلح افواج بھی اس حکمت عملی میں مصروف ہیں گزشتہ روز فوجی قیادت اور حکومتی ایکشن کمیٹی کا ایک طویل مشترکہ اجلاس ہوا میری خواہش ہے کہ ہم نے سولہ دسمبر کے فوراً بعد جس اتحاد اور یکجہتی کا بے مثال مظاہرہ کیا ہے وہ قائم رہے ہمارا اتحاد و اتفاق ہی دہشتگردوں کیلئے پیغام ہے کہ اب پوری قوم دہشتگردی کے خاتمے کو اپنی جنگ سمجھ کر میدان میں آئی ہے اگر خدانخواستہ اس اتحاد واتفاق کی فصیل میں کوئی لکیر پڑ گئی تو یہ قومی نقصان ہوگا وزیر اعظم نے کہاکہ قومی ایکشن پلان 20نکات پر مشتمل ہے جس کا ذکر پہلے کر چکا ہوں پلان کی منظوری کے چند لمحموں بعد ہر نقطے کے حوالے سے خصوصی کمیٹی قائم کر دی ہر کمیٹی کو ٹھوس تجاویزات کیلئے مختصر وقت دیا گیا اور بیشتر کمیٹیوں کی رپورٹس موصول ہو چکی ہیں جن کو عملی جامہ پہنانے کی مشق شروع کی جا چکی ہے میں روزانہ کی بنیاد پر پیشرفت کا خود جائزہ لے رہا ہوں وزیر اعظم نے کہاکہ اب تک کی ترجیحات کے مطابق دہشتگردوں کو کیفر کر دار تک پہنچانے کیلئے قانون و انصاف کے فوری نظام پر کام مکمل کیا جارہا ہے چوبیس دسمبر کے اجلاس میں پورے ملک کی قیاد ت نے بہت غوروخوض کے بعد ایسی عدالتوں کی منظوری بھی دی تھی جس کے سربراہ فوجی افسران ہوں یہ اتفاق رائے سے طے پایا تھا کہ ان عدالتوں میں صرف دہشتگردوں کے مجرموں کے مقدمات چلائے جائیں گے یہ بھی طے پا گیا تھا کہ ان عدالتوں کیلئے ایک مدت کا تعین کر لیا جائے ہم نے ا س سلسلے میں تمام قانون و آئینی اقدامات کا خاتمہ تیار کرلیا ہے مجھے یقین ہے کہ ہم اتفاق رائے کے ساتھ پارلیمنٹ سے اس کی منظوری حاصل کر لینگے بلکہ پارلیمنٹیرین خود منظور کرینگے یہ انہی کے ہاتھ کا بنایا ہوا خاکہ ہے اس کیلئے آج کل میٹنگز ہورہی ہیں تمام ممبران کا مشکور ہوں جو میٹنگز میں آتے ہیں انہوں نے کہاکہ یہ قومی معاملہ ہے جس میں سب بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں ہم نے طے کرلیا ہے کہ ا ب پاکستان میں کسی مسلح جتھے کو کام کر نے کی اجازت نہیں ہوگی کوئی گروہ طاقت کے زور پر اپنے نظریات مسلط نہیں کر سکے گا کالعدم تنظیمیں اپنے آپ کو حقیقی معنوں میں کالعدم سمجھیں انہیں کسی بھی شکل میں کام کر نے کی اجازت نہیں ہوگی وزیر اعظم نے کہاکہ میڈیا کی آزادی کسی بھی جمہوری ریاست کی ضرورت ہے ہر قیمت پر اس آزادی کا تحفظ کرینگے میڈیا کو آزادی ہوگی کہ وہ حکومت پر تنقید ضرور کرے حکمرانوں کی کمزوریوں پر نظر رکھے اور پھر غلط اقدامات کی نشاندہی کرے ہم خوش آمدید کہیں گے وزیر اعظم نے کہا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس میں بہت ساری ایسی چیزوں کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے ہم دہشتگردی کو میڈیا کے ذریعے فروغ دینے کی اجازت نہیں دینگے وزیر اعظم نے کہاکہ اس ایوان کے معزز اراکین پر واضح کر نا چاہتا ہوں کہ یہ صرف حکومت کا نہیں پوری قوم کا ایکشن پلان ہے پوری سیاسی و عسکری قیادت کا ایکشن پلان ہے میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ ہمیں ایسے اقدامات کر نے پڑ رہے ہیں جو معمول کے حالات میں نہیں ہوتے لیکن یہ حالت جنگ ہے انہوں نے کہاکہ اس کا فیصلہ کون کررہا ہے ؟اس کا فیصلہ قومی قیادت کررہی ہے کہ قوم کو یہ مسائل درپیش ہیں قوم ایک غیر معمولی حالات سے گزر رہی ہے اور ان غیر معمولی حالات کا مقابلہ کر نے کیلئے ان غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے کیا کرناچاہیے ، کون سا قانون بنانا چاہیے ، کس طرح کے کورٹس بنانے چاہئیں ، کس طرح کی آئینی ترامیم کر نی چاہئیں ؟اس کا فیصلہ پارلیمان کررہا ہے کوئی ایک شخص نہیں کررہا ہے یہ قومی قیادت کررہی ہے اور یہ جمہوریت کے اندر رہتے ہوئے کررہی ہے وزیر اعظم نے کہا کہ قانون ، آئین سب کچھ اسی لئے ہے کہ پاکستان کے عوام کی زندگیوں کو تحفظ فراہم کیا جائے اس آئین اور قانون کا کیا فائدہ ہوگا جو پاکستانی عوام کی زندگیوں کا تحفظ نہ کر سکے پھول جیسے بچوں کی زندگیوں کا تحفظ نہ کر سکے میں سمجھتا ہوں کہ آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے سارے کام کررہے ہیں میں خود میرے دائیں بیٹھے ہوئے حضرات نے بڑی مشکلات کاٹیں ہیں ہم نے ملک کے اندر سزائیں بھگتی ہیں قانون اور آئین سے انحراف کر نے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا وزیر اعظم نے کہاکہ عدلیہ کی آزادی کیلئے جدو جہد کی ہے عدلیہ کی آزادی کیلئے میدانوں میں نکلے ہیں اس میں ہم اکٹھے تھے اعتزاز احسن اور ہم ایک ہی گاڑی میں بیٹھ کر جدوجہد کا آغاز کیا تھا آج ہم قوم کی بہتری اور دفاع اور مستقبل بارے سوچ رہے ہیں ہم آنے والی نسلوں کے تحفظ کے بارے میں سوچ رہے ہیں وزیر اعظم نے کہاکہ ہمارے فوجی جوانوں کی گردنوں کو کاٹ کر لاشوں کو جیپ سے نیچے پھینکا گیا ان کی گردنوں کو فٹبال بنا کر کھیلا گیا کیا یہ معمول کے حالات ہیں کیا یہ حالات معمول کے اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں خدانخواستہ ان چیزوں کونہ روکا تو پھر شاید ہم ان تمام معاملات کو روکنے کے قابل نہیں رہیں گے یہ حالت جنگ ہے اور قومی سلامتی کا تقاضا بھی ہے وزیر اعظم نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ ہر شخص کے بنیادی حقوق ہیں لیکن پشاور میں شہید ہونے والے بچوں کے بھی کچھ حقوق تھے ان کا بھی حق تھا کہ علم حاصل کریں ان کا بھی حق تھا کہ جوان ہو کر اپنے خوابوں میں رنگ بھریں ان کا بھی حق تھا کہ وہ اپنے کارناموں سے نام اور مقام حاصل کریں ان کا بھی حق تھا کہ اپنے والدین کی آرزؤں کی تکمیل کریں لیکن دہشتگردوں نے ان کے سارے حقوق چھین لئے چند لوگوں نے ان کی زندگیاں چھین لیں ہم انسانی حقوق کا احترام کرتے ہیں لیکن ایسے دہشتگردوں کے حقوق کیلئے معاشرے کو جنگل نہیں بنایا جاسکتا میں ایوان کے ذریعے سے یہ گزارش کرناچاہتا ہوں کہ قوم کی پوری توجہ دہشتگردی کے خاتمے پر مرکوز رہنی چاہیے کسی بھی صورت میں ترجیح پس منظر میں نہیں جانی چاہیے وزیر اعظم نے کہاکہ میں اس ایوان اور پوری ملکی قیادت کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس اہم مرحلے میں پوری یکجہتی کے ساتھ قومی ایکشن پلان پر کھڑے ہیں انشاء اللہ ہماری منزل دور نہیں اللہ کی تائید اورنصرت اور عوام کی حمایت حاصل ہے ۔