اتحاد امت کے ایرانی نعرے، مگر نماز اپنی اپنی

ہفتہ 10 جنوری 2015 21:18

اتحاد امت کے ایرانی نعرے، مگر نماز اپنی اپنی

تہران (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔10جنوری۔2015ء)ایران میں اتحاد عالم اسلامی کے حوالے سے منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس میں دنیا بھر سے اسلامی تحریکوں کے رہنمائوں سمیت اہل تشیع اور اہل سنت والجماعت مسلک کے علماء و مشائخ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ بہ ظاہر یہ کانفرنس فرقہ واریت کےخلاف اور مسلمانوں میں یکجہتی پیدا کرنے کی منفرد کوشش تھی لیکن اتحاد عالم اسلام کی اس کاوش میں بھی فرقہ واریت کا جادو سر چڑھ کر بولتا دکھائی دیا۔

ایرانی خبر رساں ایجنسی’’رسا‘‘ نے اپنی رپورٹ میں تہران میں منعقدہ اتحاد امت کانفرنس کی ایسی تصاویر جاری کیں جو اس کانفرنس کے شرکاء اور فاضل علماء میں موجود فرقہ وارانہ سوچ کا مظہر ثابت ہوئی ہیں۔ ان تصاویر میں ایک ہی وقت میں ایک ہی مسجد کی چھت تلے شیعہ اور سنی مسالک کے لوگوں کو اپنی الگ الگ باجماعت نمازیں ادا کرتے دکھایا گیا ہے۔

(جاری ہے)

ایران کے قدامت پسند حلقوں کی ترجمان خبر رساں ایجنسی ’’رسا‘‘ کی جانب سے جاری تصاویر نے نہایت تیزی کے ساتھ انٹرنیٹ پر مشتہر ہونا شروع ہوئیں جس کے بعد ان پر سخت عوامی رد عمل سامنے آیا۔ رد عمل کے بعد یہ تصاویر ویب سائیٹس سے ہٹا دی گئیں۔ تاہم اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی اور تصاویر کو ہزاروں افراد نے سوشل میڈیا پر پھیلا دیا تھا۔

انٹرنیٹ بلاگرز نے تصاویر پر تبصروں میں شیعہ، سنی مسالک کے علماء کی الگ الگ با جماعت نمازوں کو اتحاد عالم اسلامی کی مساعی کے لیے شرمناک قرار دیا اور کہا ہے ان تصاویر سے یہ صاف دکھائی دیتا ہے کہ مسلمانوں کی صفوں میں وحدت پیدا کرنے کی ایران کی کوششیں کارگر ثابت نہیں ہوئی ہیں۔ ایک ہی وقت میں ایک ہی مسجد میں شعیہ اور سنی مسالک کے پیروکاروں کی اپنی اپنی نمازوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں یگانگت پیدا کرنے والوں کی اپنی نیت میں فتور ہے اور وہ ’’ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے‘‘ کا نعرہ تو لگاتے ہیں مگر وہ خود اس کا عملی مظاہرہ نہیں کر سکے ہیں۔

خیال رہے کہ ایران میں 28 ویں بین المذاہب ومسالک تین روز اتحاد امت کانفرنس سات سے نو جنوری کو تہران میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کے افتتاحی سیشن میں ایرانی صدر حسن روحانی نے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے مسلمانوں میں اتحاد واتفاق کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اگر ہم شام، عراق اور لبنان کی تباہی کا دکھ پاکستان، سعودی عرب اور اردن سمیت پوری دنیا میں محسوس کریں تو ہم مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد قائم کر سکتے ہیں۔ اگر ہم پوری دنیا میں اہل تشیع اور اہل سنت کے دکھ محسوس کریں تو اتحاد کوئی مشکل نہیں ہے‘‘۔