ارباب غلام رحیم نے اپنے دور حکومت میں 45ٹارگٹ کلرز کو پے رول پر رہا کیا ،شرجیل انعا م میمن ،

عوام کیساتھ ان کی زیادتی کو بے نقاب کرنے کیلئے جلد عدلیہ سے رجوع کرونگا، ارباب رحیم، لیاقت جتوئی کے ادوار میں بڑے بڑے سانحات رونماء ہوئے، دونوں کے اچانک سرگرمہونے سے کوئی نہ کوئی، کہی نہ کہی کی خوشبو آرہی ہے،وزیر اطلاعات سندھ کی میڈیا سے گفتگو

جمعہ 23 جنوری 2015 19:03

ارباب غلام رحیم نے اپنے دور حکومت میں 45ٹارگٹ کلرز کو پے رول پر رہا کیا ..

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔23جنوری۔2015ء) سندھ کے وزیر اطلاعات و بلدیات شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ ارباب غلام رحیم نے اپنے دور حکومت میں 45 ایسے ٹارگٹ کلرز جن کے مقدمات زیر سماعت تھے انہیں ایک نہیں بلکہ آٹھ آٹھ بار پے رول پر رہا کیا اور یہ تمام آج مفرور ہوگئے ہیں۔ ملک کے عوام کے ساتھ ان کی اس زیادتی کو بے نقاب کرنے کے لئے جلد عدلیہ سے رجوع کروں گا۔

سابق وزراء اعلیٰ ارباب غلام رحیم اور لیاقت جتوئی کے ادوار میں یہاں سانحہ 12 مئی، سانحہ 18 اکتوبر اور دیگر بڑے بڑے سانحات رونما ہوئے ہیں ان کا بھی ان سے حساب لیا جائیگا، ان دونوں کا اچانک سرگرم ہونا اور مارشل لاء کی حمایت میں بیانات دینا اور جو انداز انہوں نے سندھ اسمبلی میں اپنایا ہے اس سے کوئی نہ کوئی اور کہی نہ کہی کی خوشبو آرہی ہے۔

(جاری ہے)

وہ جمعہ کو سندھ اسمبلی کے اجلاس سے قبل میڈیا سے بات چیت کررہے تھے۔ شرجیل میمن نے کہا کہ ان دونوں سابق وزراء کا ٹریک ریکارڈ ہے کہ انہوں نے آمروں کا احترام کیا اور جمہوریت کے خلاف سازشیں کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان دونوں کے ادوار میں ملک اور بالخصوص کراچی میں بڑے بڑے سانحات رونما ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ارباب غلام رحیم نے اپنے وزارت اعلیٰ کے دور میں 45 ایسے افراد جو ٹارگٹ کلنگ میں ملوث تھے اور جن پر دفعہ 302 کے تحت مقدمات زیر سماعت تھے انہیں آٹھ آٹھ مرتبہ پے رول پر چھوڑنے کی سمری پر دستخط کئے اور یہ تمام شواہد کے ساتھ میرے پاس موجود ہیں اور اس سلسلے میں جلد ہی میں عدلیہ سے بھی رجوع کروں گا تاکہ پاکستان اور سندھ کے عوام کے سامنے ان کا اصلی چہرہ بے نقاب ہوسکے۔

ایک سوال کے جواب میں شرجیل میمن نے کہا کہ اس وقت سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کے ارکان اور جماعتوں کی جانب سے جس طرح کا رویہ اختیار کیا گیا ہے اور جو زبان اور انداز وہ اختیار کئے ہوئے ہیں اس سے واضع ہوتا ہے کہ انہیں پس پشت کسی کا آشیرواد حاصل ہے۔انہوں نے کیا کہ اب عوام کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ان کو ڈکٹیٹروں کا ساتھ دینا ہے یا پھر ان لوگوں کا جن کی قیادتوں نے جمہوریت کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پیر صاحب پگارا مرحوم کے لئے ہمارے دل میں پہلے بھی احترام تھا، اب بھی ہے اور ہمیشہ رہے گا اور ان کی پیشنگوئی کے حوالے سے ارباب غلام رحیم نے ہمارے چیئرمین کے لئے جو کچھ کہا ہے تو وہ عوام کو یہ بتائیں کہ پیر صاحب پگارا نے انہیں کیا لقب دیا تھا۔ ایک اور سوال کے جواب میں شرجیل انعام میمن نے کہا کہ لیاقت جتوئی آئینی اور قانونی طور پر اس اسمبلی کے رکن نہیں ہوسکتے کیو نکہ انہوں نے جس پارٹی سے انتخاب لڑا تھا اس سے علیحدگی کا اعلان بھی کردیا ہے اور اب نہ تو ان کی کوئی پارٹی ہے اور نہ ہی ان کا کوئی لیڈر ہے۔

اس لئے میں سوال اسپیکر سندھ اسمبلی، وزیر اعظم پاکستان اور اعلیٰ عدالتوں کے لئے چھوڑتا ہوں کہ وہ اس کا فیصلہ کریں۔ ارباب رحیم کی جانب سے انہیں پیپلز پارٹی میں ثمولیت کی دعوت دئیے جانے کے دعوے کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انہیں کسی قسم کی کوئی دعوت نہیں دی گئی ہے اور انتخابات میں تھر میں جو نتائج عوام کی جانب سے پیپلز پارٹی کے حق میں ملیں ہیں وہ بھی سب کے سامنے ہیں۔

شہریار مہر کی جانب سے گذشتہ روز لگائے الزامات کے سوال پر انہوں نے کہا کہ انہیں تا اس بات کا علم تک نہیں ہے کہ گذشتہ 10 ماہ قبل ہی میں نے اپنے ٹی ایم اوز کے تمام اختیارات کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کے حوالے کردئیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں پہلا ایسا بلدیاتی وزیر ہوں جس نے اپنے تمام ٹی ایم اوز والے اختیارات کو ڈی سیز کو دے دئیے ہیں، جس کے بعد اب تمام معاملات میرٹ پر اور اوپن ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہریار مہر نے مجھ پر جو الزامات لگائے ہیں انہیں وہ ایوان میں سامنے لائیں اور حلفیہ کلمہ پڑھ کر ان الزامات کو دوبارہ دھرائیں تو میں اپنی وزرات سے ہی استعفیٰ دے دوں گا۔