بھارت سے بڑے پیمانے پر روئی اور سوتی دھاگے کی درآمد ، مقامی مارکیٹ میں روئی اور پھٹی کی قیمتوں میں مندی کا رجحان ،

گزشتہ چند روز میں روئی کی قیمت 100سے 200روپے فی من مندی کے بعد 4ہزار900سے5ہزار100روپے فی من تک گر گئیں

جمعہ 23 جنوری 2015 23:03

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔23جنوری۔2015ء) بھارت سے بڑے پیمانے پر روئی اور سوتی دھاگے کی درآمد نے مقامی مارکیٹ میں روئی اور پھٹی کی قیمتوں میں مندی کا رجحان پیدا کر دیا ، ملک کے مختلف شہروں میں گزشتہ چند روز کے دوران روئی کی قیمت 100سے 200روپے فی من مندی کے بعد 4ہزار900سے5ہزار100روپے فی من تک گر گئیں جبکہ ٹیکسٹائل سیکٹر کو بجلی اور گیس کی فراہمی میں کمی کے باعث بھی کاٹن انڈسٹری ایک بڑے معاشی بحران کا شکار ہو سکتی ہے ، چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق کے مطابق بھارتی روپے کی ڈالر کے مقابلے میں مسلسل گرتی ہوئی قدر اور بھارتی حکومت کی جانب سے اپنے برآمد کنندگان کو اضافی مراعات کے باعث رواں سال بھارتی روئی اور سوتی دھاگے کی پاکستان میں بڑے پیمانے پر درآمد دیکھی جا رہی ہے جس سے ملکی کاٹن انڈسڑی کے مستقبل پر ایک سوالیہ نشان دیکھا جا رہا ہے جبکہ اس صورتحال کے پیش نظر اپٹما،کاٹن جنرز اور کسان تنظیموں کی بار بار اپیلوں کے باوجود نہ تو حکومت پاکستان بھارت سے سوتی دھاگے اور روئی کی درآمد پر پابندی عائد کر رہی ہے اور نہ ہی ان اشیاء کی درآمد پر عائد ڈیوٹیز میں اضافہ کیا جا رہا ہے، انہوں نے بتایا کہ اس پاکستان میں بھارت سے سوتی دھاگے کی درآمد پر صرف پانچ فیصد ڈیوٹی عائد ہے جبکہ بھارت نے پاکستان سے سوتی دھاگے کی درآمد پر نہ صرف 30فیصد ڈیوٹی عائد کر رکھی ہے بلکہ پاکستان کو سوتی دھاگہ برآمد کرنے والے اپنے برآمد کنندگان کے لیے پانچ فیصد اضافی مراعات کا بھی اعلان کر رکھا ہے جس کے باعث بھارت نے پاکستان سے بھارت میں سوتی دھاگے کی درآمد نا ممکن بنا رکھی ہے جبکہ بھارت سے بڑے پیمانے پر سوتی دھاگے کی پاکستان میں درآمدات دیکھی جا رہی ہیں جس سے پاکستانی کاٹن انڈسٹری اور زرعی معیشت زوال پذیر ہے، انہوں نے کہا کہ بھارت سے روئی اور سوتی دھاگے کی درآمد پر فوری طور پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیکسٹائل سیکٹر کو اگر بجلی اور گیس کی فوری مکمل بحالی نہ کی گئی تو کاٹن انڈسٹری کے ایک بڑے معاشی بحران کی زد میں آنے کا خدشہ ہے ، انہوں نے کہا کہ اطلاعات کے مطابق پچھلے ہفتے جرمنی میں ہونے والے ایک ٹیکسٹائل فیئر سے پاکستانی ٹیکسٹائل ملز مالکان کو بڑے پیمانے پر ہوم ٹیکسٹائل کے برآمدی آرڈرز ملے ہیں لیکن خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ توانائی کے غیر معمولی بحران کے باعث ان آرڈرز کی بر وقت تکمیل میں کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اس لیے حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ ٹیکسٹائل سیکٹر کو ترجیحی بنیادوں پر گیس اور بجلی کی فراہمی یقینی بنائے ۔

متعلقہ عنوان :