سانحہ پشاور نے قوم کو ہلا دیا،فوج ڈرائیونگ سیٹ پر ہے،برطانوی جریدہ

ہفتہ 24 جنوری 2015 14:04

سانحہ پشاور نے قوم کو ہلا دیا،فوج ڈرائیونگ سیٹ پر ہے،برطانوی جریدہ

لندن (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 24 جنوری 2015ء) برطانوی جریدہ ”اکنامسٹ“ نے سانحہ پشاور کے بعد دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج اور حکومت کے اقدامات پر اپنی تجزیاتی رپورٹ میں کہا ہے کہ فوج ملک کی ڈرائیونگ سیٹ پر ہے ‘سانحہ پشاور نے پوری پاکستانی قوم کو ہلاکر رکھ دیا۔ طالبان کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریزاں نواز شریف اور عمران خان سمیت دیگر معروف سیاست دانوں کو اسکول قتل عام نے ایک ہی صف میں لا کھڑا کیا کہ عسکریت پسندی پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔

اچھے اور برے طالبان کے بارے وسیع پیمانے پر ایک غلط فہمی پھیلائی گئی۔فوج کا موقف درست ثابت ہوا کہ طالبان پاکستان کے ساتھ مخلص نہیں۔جنرل شریف اور ان کے ساتھی افسران دلیل دیتے ہیں کہ اسکول قتل عام نے نہ صرف طالبان کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریزاں سیاسی طبقے کو بلکہ ملک کی کثیر آبادی کو یہ حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور کردیا کہ اسلامی عسکریت پسند پاکستان کے وجود کے لئے خطرہ ہیں۔

(جاری ہے)

2013 ء میں جب سے جنرل راحیل شریف آرمی چیف بنے وہ اسی وقت سے عسکریت پسندوں پر آہنی ہاتھ ڈالنا چاہتے تھے اور ان انتہا پسندوں کو کچلنا چاہتے تھے۔ تاہم وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ ساتھ دیگر معروف سیاستدان جن میں خاص طور پر عمران خان شامل ہیں وہ طالبان کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریزاں تھے ۔وہ تشویش میں مبتلا تھے کہ اس فوجی مہم کی عوام حمایت نہیں کریں گے۔

عسکریت پسندوں کے خطرے کی وسیع پیمانے پر مقبول غلط فہمی یہ ہے کہ نام نہاد اچھے طالبان کی حمایت پاکستان کے طاقتور حلقے کرتے ہیں ۔ نواز شریف اورعمران خان تحریک طالبان کے ساتھ امن مذاکرات پر زور دیتے تھے ۔جرنیلوں نے سیاسی قیادت کی بات مانتے ہوئے مذاکرات کے عمل کو دیکھا تاہم فوج اپنے موقف میں درست ثابت ہوئی کی تحریک طالبان پاکستان مخلص نہیں تھی۔

فوج نے واضح کیا کہ کوئی برے اچھے طالبان میں فرق نہیں۔ جنرل راحیل شریف نے لندن اور واشنگٹن کے حالیہ دوروں میں کہا کہ قبائلی پٹی میں ان گنت کارروائیوں سے عسکریت پسندوں کے ٹریننگ کیمپ تباہ کردئیے۔ پاکستانی ریاست جہادی گروپوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کرچکی ہے ۔ جماعت الدعوة کے سیاسی ونگ پرپابندی کے پاکستانی حکومت کے فیصلے نے کئی حلقوں کو حیران کردیا۔

جریدہ لکھتا ہے کہ یہ بالکل مناسب تھا کہ پاکستانی رہنماؤں کو وسط جنوری کی صبح پشاور میں آرمی پبلک اسکول کے شاگردوں کے استقبال کے لئے ذاتی طور پر ہونا چاہئے تھا ۔اسکول کے دروازے پر انتظار کرنے والے منتخب وزیر اعظم نواز شریف نہیں اور نہ ہی ملک کا صدر تھا بلکہ وزیر اعظم کے ہم نام فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف تھے۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کس طرح فوج دہشتگردی کے خلاف جنگ سے نبرد آزما ہے۔

گزشتہ موسم گرما میں جنرل شریف نے شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی شروع کی۔ قومی ایکشن پلان اب متشدد گروپوں کے فنڈز کی فراہمی ،نفرت انگیز تقریر کو روک پائے گا اور دینی مدارس کو کنٹرول کرے گا۔صدر اشرف غنی کے صدر بننے کے بعد پاکستان کے ساتھ افغانستان کے کشیدہ تعلقات میں ڈرامائی طور پر بہتری آئی ہے۔

متعلقہ عنوان :