اگر ہم نے سی ایم ہاوٴس پر حملہ کیا ہے تو واقعے کی ایف آئی آر ہمارے ارکان سندھ اسمبلی کیخلاف درج کرائی جائے ،ایم کیو ایم

منگل 27 جنوری 2015 17:27

کراچی (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 27 جنوری 2015ء ) متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) نے وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی جانب سے عائد کردہ اس الزام کی سختی سے تردیدکی ہے کہ ایم کیو ایم کی جانب سے چیف منسٹر ہاوٴس پر حملہ کیا گیا ۔ ایم کیو ایم کے رہنماوٴں کا کہنا ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ کے محل پر معصوم کارکنوں کے جنازے لے کر گئے تھے اور جانے کا مقصد حملہ کرنا نہیں تھا ۔

اگرہم نے حملہ کیاہے توہمارے خلاف مقدمہ قائم کیا جائے ۔وہ منگل کو سندھ اسمبلی کے اجلاس سے واک آؤٹ کے بعداسمبلی بلڈنگ میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے ۔ فیصل علی سبزواری نے کہاکہ ایم کیو ایم نے اپنے پر امن احتجاج کے دوران سی ایم ہاوٴس کے قریب موجود کنٹینرز ضرور ہٹائے تھے لیکن کسی کے پر گولیاں نہیں چلائیں ۔

(جاری ہے)

اگر وزیر اعلیٰ سندھ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے سی ایم ہاوٴس پر حملہ کیا ہے تو وہ اس واقعے کی ایف آئی آر درج کروائیں ۔

اگراس واقعے کی ایف آردرج نہیں ہوتی تو اسکا مطلب یہ ہواکہ یہ واقعہ رونما نہیں ہوااور وزیراعلی نے ایوان میں غلط بیانی کی ہے اورہمارااستحقاق مجروح کیا ہے۔ اگر انہوں نے ایسانہ کیا تو وزیر اعلیٰ کی اس غلط بیانی پر ہم ان کے خلاف تحریک استحقاق پیش کریں گے اوراحتجاج کے تمام آئینی اورقانونی طریقے اختیارکریں گے۔اسمبلی فلورپرکوئی شکوہ کریں توانہیں حملہ لگتا ہے۔

فیصل علی سبزواری نے کہاکہ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے اپنے الفاظ اور اپنی سوچ سے ثابت کیا ہے کہ سندھ بدقسمت صوبہ ہے اور بدعنوان کراچی پولیس نے ایم کیو ایم کے کارکنوں کو قتل کیا ، ان کو انصاف نہیں ملا ۔ اگر ایم کیو ایم نے وزیر اعلیٰ ہاوٴس پر حملہ کیا تھا ۔ حکومت نااہل ہے ، جس کا وزیر اعلیٰ کہہ رہا ہے کہ اس کے گھر پر حملہ کیا گیا لیکن ایف آئی آر نہیں کاٹی گئی ۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ سے صوبہ چل رہا ہے اور نہ ہی پولیس ان کے کنٹرول میں ہے ۔ پولیس شک کی بنیاد پر ہمارے بے گناہ کارکنوں کو اٹھا لیتی ہے اور بعد میں ان کے جنازے ہم اٹھاتے ہیں ۔ اگر ہم اپنے معصوم کارکنوں کے جنازے لے کر سی ایم ہاوٴس چلے گئے تو اس میں کون سا آسمان ٹوٹ پڑا ۔ وزیر اعلیٰ کا یہ فرض ہے کہ وہ صوبے کے عوام کے ہر مسئلے پر توجہ دے ۔

اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو سی ایم ہاوٴس کے گیٹ پر اوقات ملاقات کے لیے صبح 9 بجے سے شام5 بجے تک کا بورڈ آویزاں کر دیں ۔انہوں نے کہا کہ ہمارا احتجاج مکمل طور پر امن اور جمہوری انداز میں تھا ، جسے غلط رنگ دیا جا رہا ہے ۔انہوں نے کہاکہ پیپلزپارٹی کی قیادت وزیراعلی سندھ کے بیان کا نوٹس لے اورصوبے پررحم کھائے،طاقت کے نشے میں شہریوں کوپیسنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔

خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ کا یہ فرض تھا کہ وہ ایڈیشنل آئی جی سے ان کے بیان کی وضاحت طلب کرتے ۔ اسمبلی کے ایوان میں وزیر اعلیٰ سے سوال کرنا ہمارا جمہوری حق ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ وزیر اعلیٰ نے ہمارے اس جمہوری حق کو تسلیم نہیں کیا اور چیف منسٹر ہاوٴس پر پر امن احتجاج کو وزیر اعلیٰ ہاوٴس پر حملہ قرار دے دیا ۔ وزیراعلی سندھ لواحقین کے احتجاج کوحملہ قراردیتے ہیں یہ شاید ان کی عمرکا تقاضہ ہے۔

یہ قابل مذمت عمل ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سید قائم علی شاہ نے امن وامان کے قیام کی ذمہ داری رینجرز پر ڈال دی ہے ۔ ڈی جی رینجرز کو اس کا نوٹس لینا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ ہمیں پرانے زمانے کی باتیں یاد دلا رہے ہیں ۔ ہم بھی انہیں پرانی باتیں یاد دلائیں گے توپھر ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہو گا ۔ خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ کو یہ یاد ہونا چاہئے کہ ان کے دو منتخب صدور نے پیپلز پارٹی کی حکومتوں کو دو دفعہ ماورائے عدالت قتل کے الزام میں ہی برطرف کیا تھا ۔

انہوں نے کہاکہ گھمنڈ قمرمنصورکونہیں وزیراعلی سندھ کوہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور کو چیئرمین کو وزیر اعلیٰ سندھ کی بد انتظامی کا فوری نوٹس لینا چاہئے اور وہ صوبے پر رحم کریں ۔ خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ قائم علی شاہ کے دور حکومت میں ہمارے 650 کارکن قتل کیے گئے اس پر وزیر اعلیٰ کو برطرف کر دینا چاہئے اور اگر کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل کو نہ روکا گیا تو ملک میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہو جائے گا ۔ خواجہ اظہار نے کہاکہ جس ممبرنے وزیراعلی سندھ کوکراچی کے شہریوں اورمتحدہ کے زخموں پر نمک پاشی پر مبارکباد دی ہے ان کا کچھا چٹھا جلد کھولیں گے۔