سرد جنگ خاتمے کے 25 سال بعد دنیا کو نئے جوہری تنازع کے خطرات کا سامنا ہے، بھارت کی روایتی فورسز کو نیچا دکھانے کیلئے پاکستان میدان جنگ میں ایٹمی ہتھیاروں کے درجنوں ڈھیر جمع کر رہا ہے،بھارت اور پاکستان کے پاس کم تجربہ ہے اور دونوں ممالک کے درمیان رابطے کا بھی فقدان ہے، کسی بحران میں ان ممالک کی رہنمائی کرنے والا عملی طور پر کوئی نہیں،پاکستان کا موقف ہے کہ اس کے جوہری ہتھیار محفوظ ہاتھوں میں ہیں جب کہ بیرونی دنیا کو خدشات ہیں کہ مذہبی عسکریت پسندوں کے ہاتھ یہ ہتھیار لگ سکتے ہیں،

بھارت کے پاکستان اور چین سے سرحدی تنازعات ہیں جبکہ دونوں ا طراف جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں،آئندہ چند ہفتوں میں ایران کااپنے جوہری پروگرام کو روکنے پر اتفاق ہو سکتا ہے،ممکنہ معاہدے کے تحت2025 کے بعد ایران کو آہستہ آہستہ اپنی کوششوں کو وسیع کرنے کی اجازت دی جائے گی، برطانوی جریدے ”اکانومسٹ“ کی رپورٹ

جمعہ 6 مارچ 2015 00:11

سرد جنگ خاتمے کے 25 سال بعد دنیا کو نئے جوہری تنازع کے خطرات کا سامنا ..

لندن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔5 مارچ۔2015ء) برطانوی جریدے ”اکانومسٹ“ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سرد جنگ خاتمے کے 25 سال بعد دنیا کو نئے جوہری تنازع کے خطرات کا سامنا ہے، بھارت کی روایتی فورسز کو نیچا دکھانے کے لئے پاکستان میدان جنگ میں ایٹمی ہتھیاروں کے درجنوں ڈھیر جمع کر رہا ہے،بھارت اور پاکستان کے پاس کم تجربہ ہے اور دونوں ممالک کے درمیان رابطے کا بھی فقدان ہے، کسی بحران میں ان ممالک کی رہنمائی کرنے والا عملی طور پر کوئی نہیں،پاکستان کا موقف ہے کہ اس کے جوہری ہتھیار محفوظ ہاتھوں میں ہیں جب کہ بیرونی دنیا کو یہ خدشات ہیں کہ مذہبی عسکریت پسندوں کے ہاتھ یہ ہتھیار لگ سکتے ہیں۔

جریدے کا اپنی رپورٹ میں کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہاٹ لائن قائم ہے اور وہ جوہری تجربات سے قبل ایک دوسرے کو مطلع بھی کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

تاہم جوہری سیکورٹی کو بہتر بنانے کے اقدامات پر دونوں ممالک بات نہیں کرتے جیسا کہ سرحدوں سے جوہری ہتھیاروں کو دور لے جانے کی مثال ہے۔بھارت کے پاکستان اور چین سے سرحدی تنازعات ہیں جب کہ دونوں ا طراف جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں۔

جریدے کے مطابق آئندہ چند ہفتوں میں ایران کااپنے جوہری پروگرام کو روکنے پر اتفاق ہو سکتا ہے۔

ممکنہ معاہدے کے تحت2025 کے بعد ایران کو آہستہ آہستہ اپنی کوششوں کو وسیع کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ جریدہ لکھتا ہے کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے پچیس سال بعد دنیا نئے جوہری دور میں داخل ہو رہی ہے۔ ہر ایٹمی طاقت اپنے جوہری ہتھیاروں کی اپ گریڈنگ پر بے تحاشا خرچ کر رہی ہے۔

روس نے اپنے دفاعی بجٹ میں 2007 کے بعد سے اب تک 50 اضافہ کیا ہے اس بجٹ کا ایک تہائی جوہری ہتھیاروں کے لئے وقف ہے۔فرانس اور چین آبدوزوں اور موبائل میزائل بیٹریوں پر دگنا خرچ کر رہے ہیں۔ شمالی کوریا ہر سال اپنے اسٹاک میں ایک وار ہیڈ کا اضافہ کرتا ہے۔اس کے پاس تقریباً دس ایٹم بم ہیں اور اس وقت وہ امریکا کو نشانہ بنانے والے میزائل پر کا م کر رہا ہے۔

وائٹ ہاؤس میں نوبل انعام یافتہ اوباما نے جوہری ہتھیاروں کو جدید بنانے کے لئے کانگریس سے تقریبا ً 350 ارب ڈالر مانگے ہیں۔ نئی طاقتوں کے پاس وراسٹائل ہتھیار ہیں جنہوں نے ایٹمی نظریے کو ایک گیس پیپر میں تبدیل کردیا ہے۔

یہاں تک کہ سرد جنگ کے دوران بھی اس کے اصول اور دماغی قوت کے باوجود، سوویت یونین اور امریکہ اکثر ایک دوسرے کے بارے غلط اندازے لگاتے تھے۔

اگر مشرق وسطیٰ میں جوہری ہتھیار پھیل گئے تو سب سے پہلے ایران پھر سعودی عرب جوہری ہتھیار حاصل کریں گے اور اس کے بعد ممکنہ طور پرمصر بھی اسرائیل کی صف میں کھڑاہو گا۔سب سے بدترین صورت حال عدم استحکام ہے۔کچھ ممالک جوہری ہتھیاروں کو ملکی سلامتی کی ضمانت سمجھتے ہیں۔ دیگر ممالک جوہری ہتھیاروں کو اسٹیٹس کو کی وجہ سے منجمند نہیں کرتے۔

روس آج بھی ڈمی جوہر ی ہتھیاروں سے باقاعدگی سے فوجی مشقیں کرتا ہے۔ روس اور چین مغرب کے بنائے گئے ضوابط سے مطمین دکھائی نہیں دیتے۔ سرد جنگ کے دوران امریکا اور روس نے کچھ پروٹوکول وضح کیے، چین جوہری ہتھیاروں کے حجم ،اسٹیٹس اور صلاحیت کو بتانے سے ہچکچاتا ہے۔ اسرائیل جوہری ہتھیاروں کی موجودگی کو مانتا ہی نہیں۔امریکا اور روس بھی اس معاملے میں دور دور نظر آتے ہیں۔