داعش ’کلورین بم‘ استعمال کر رہی ہے،عراقی حکام

جمعرات 12 مارچ 2015 19:13

داعش ’کلورین بم‘ استعمال کر رہی ہے،عراقی حکام

بغداد(اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار . 12 مارچ 2015ء) عراقی حکام نے دعوی کیا ہے کہ دولتِ اسلامیہ کے شدت پسند سڑک کے کنارے ہونے والے بم دھماکوں میں کلورین گیس استعمال کرتے ہیں۔ عراقی حکام نے بی بی سی کو ایک ایسی ویڈیو فوٹیج دکھائی ہے جو ان کے خیال میں ثابت کرتی ہے بم ڈسپوزل سکواڈ کے اہلکار صورتِ حال کو قابو میں رکھ کر جو دھماکے کرتے ہیں ان کے بعد نارنجی رنگ کا دھواں فضا میں پھیل جاتا ہے۔

تاہم ماہرین کہتے ہیں کہ دولتِ اسلامیہ کے کلورین سے بنے ہوئے ان بموں سے کھلی جگہوں پر بہت زیادہ تباہی نہیں ہو سکتی۔ ان کیمطابق اس طرح کے بم نقصان سے زیادہ خوف پیدا کرتے ہیں۔اس طرح کی بہت سی اطلاعلات ہیں کہ دولتِ اسلامیہ گذشتہ سال سے دھماکہ خیز مواد سے بنے آلات یا بموں میں کلورین گیس استعمال کر رہی ہے، جبکہ عراقی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ویڈیو فوٹیج گذشتہ سال سے پھیلنے والی ان اطلاعات کی تصدیق کرتی ہے۔

(جاری ہے)

حیدر طاہر جن کا تعلق عراق کے بم ڈسپوزل ٹیم سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے ساتھیوں نے درجنوں ایسے دھماکہ خیر آلات ناکارہ بنائے ہیں جن میں کلورین گیس تھی۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’دولتِ اسلامیہ کے شدت پسندوں نے اب یہ طریقہ اختیار کر لیا ہے کہ اب وہ ان بموں میں کلورین ڈال دیتے ہیں جنھیں وہ سڑک کے کنارے نصب کرتے ہیں۔‘چھ ہفتے قبل طاہر حیدر کی ٹیم نے عراق کے شمال میں واقع تکریت شہر کے باہر غلطی سے دولتِ اسلامیہ کے بنے ہوئے ایک ہتھیار کو استعمال کر لیا۔

’جونہی دھماکہ ہوا ہمارے گلے بند ہونا شروع ہو گئے اور ہمارے لیے سانس لینا دشوار ہو گیا۔ لگتا تھا کہ میرے کانوں پر بہت زیادہ دباوٴ پڑ گیا ہے۔ ہماری خوش قسمتی تھی کہ قریب ہی ایک فوجی ایمبولنس تھی جس میں موجود اہلکاروں نے ہمیں فوری طبی امداد دی۔‘یہ نفسیاتی ہتھیار ہے جس کا مقصد نہ صرف تکریت میں عام شہریوں کو تشویش میں مبتلا کرنا ہے بلکہ عراقی فوجیوں کو بھی خوف زدہ کرنا ہے جو یہاں بموں کو ناکارہ بنانے کا کام کر رہے ہیں۔

درجہ بندی کے اعتبار سے کلورین گیس گلا بند کرنے والی گیس ہے جسے اگر زیادہ مقدار میں پھیپھڑوں تک پہنچنے دیا جائے تو پھیپھڑے جل جاتے ہیں۔ تاہم یہ نرو گیس جتنی مہلک نہیں ہے۔کیمیائی ہتھیاروں کے ماہر ہمیش ڈی بریٹن گورڈن کہتے ہیں کہ کلورین گیس کا کام زیادہ تر دھماکوں کے ذریعے خوف پھیلانا اور افراتفری پیدا کرنا ہے۔ ’یہ نفسیاتی ہتھیار ہے جس کا مقصد نہ صرف تکریت میں عام شہریوں کو تشویش میں مبتلا کرنا ہے بلکہ عراقی فوجیوں کو بھی خوف زدہ کرنا ہے جو یہاں بموں کو ناکارہ بنانے کا کام کر رہے ہیں۔

‘سڑک کے کنارے نصب کیے جانے والا دھماکہ خیز مواد یا بم بنانے میں سستے پڑتے ہیں اور شدت پسند انھیں بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ بم ناکارہ بنانے والی ٹیمیں کہتی ہیں کہ کم سطح پر کلورین گیس کا استعمال ان کے سامنے ضرور آیا ہے لیکن اب تک اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ بھاری مقدار میں کیمیائی ہتھار دولتِ اسلامیہ کے ہاتھ لگ گئے ہیں۔

متعلقہ عنوان :