آسٹریلوی طبی ماہرین نے ہومیوپیتھک طریقہ علاج کوغیرموٴثر قراردے دیا

جمعہ 13 مارچ 2015 14:17

آسٹریلوی طبی ماہرین نے ہومیوپیتھک طریقہ علاج کوغیرموٴثر قراردے دیا

سڈنی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔13مارچ۔2015ء) زمانہ قدیم سے ہی مختلف معاشروں میں لوگ مختلف طریقہ علاج اختیار کرتے رہے ہیں جس میں یونانی طریقہ علاج نے بھر پور مقبولیت حاصل کی لیکن جیسے جیسے ٹیکنالوجی نے ترقی کی ویسے ہی دنیا کے ہر کونے میں ایلو پیتھک طریقہ علاج کا راج ہوگیا لیکن اب بھی کچھ لوگوں کے نزدیک ہومیوپیتھک کو بہت اہمیت حاصل ہے تاہم نئی تحقیق نے اس طریقہ علاج کو غیر موٴثر اور وقت کا ضیاع قرار دیا ہے۔

آسٹریلیا میں 225 تحقیقی مقالوں کے بعد نیشنل ہیلتھ اینڈ میڈیکل ریسرچ کونسل نے خبردار کیا ہے کہ جو لوگ ہومیوپیتھک طریقہ علاج اختیار کرتے ہیں وہ اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں جب کہ اس کے مقابلے میں ایلو پیتھک ایک موٴثر اور بہترین طریقہ علاج ہے۔

(جاری ہے)

کونسل کا کہنا ہے کہ مشاہدے اور کئی ٹھوس شواہد کی بنیاد پر یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ کسی بھی قسم کی صحت کے لیے ہومیوپیتھک طریقہ علاج غیر موٴثر ہے۔

برطانوی اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہومیو پیتھک طریقہ علاج میں بیماری کا باعث بننے والے مرکب کوپانی یا الکوحل میں حل کرکے کم مقدار میں مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے جب کہ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ محلول بن جانے کے بعد بھی مرکب کی اصل حیثیت برقرار رہتی ہے جس سے مریض شفا یاب ہوجاتا ہے تاہم نئی تحقیق کے بعد اس طریقہ علاج کو غلط ثابت کردیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2010 برطانوی پارلیمنٹ میں ہومیوپیتھک طریقہ علاج کو غیر موٴثر قرار دیئے جانے کی رپورٹ پیش کی گئی جس کے بعد برطانیہ میں لوگوں کی بڑی تعداد نے یہ علاج ترک کردیا اور اس رپورٹ کے بعد آسٹریلیا میں بھی اس طریقہ علاج سے لوگ پیچھے ہٹ جائیں گے تاہم رپورٹ پرتبصرہ کرتے ہوئے آسٹریلوی ہومیوپیتھک ایسوسی ایشن نے دعویٰ کیا ہے کہ اب بھی لاکھوں لوگ ہومیوپیتھک طریقہ علاج پر یقین رکھتے ہیں۔

نیشنل ہیلتھ کونسل کی ورکنگ کمیٹی کے چیرمین پاوٴل گلاس زیو کا کہنا ہے کہ میڈیکل انشورنس کمپنیوں کو یہ رہنمائی فراہم کرتا ہے کہ وہ ہومیوپیتھک علاج کی پیش کش بند کردے اور میڈیکل اسٹورز کو ان ادویات کا اسٹاک رکھنے سے روک دے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کچھ تحقیقات میں اس علاج کو موٴثر دکھانے کی کوشش کی گئی لیکن ان میں زیادہ تر تحقیقات نہ صرف غیر معیاری ہیں بلکہ وہ عالمی قوانین پر بھی پورا نہیں اترتیں۔#/s#