سعودی عرب: بچوں کے ناموں کی جانچ پڑتال

جمعہ 13 مارچ 2015 21:52

سعودی عرب: بچوں کے ناموں کی جانچ پڑتال

جدّہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔13مارچ۔2015ء) سعودی عرب میں نومولود بچوں کے ناموں میں حالیہ برسوں کے دوران نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے، اور اس کی وجہ معاشرے میں علم کے پھیلاؤ اور ثقافتی کشادگی کو قرار دیا جارہا ہے۔ سعودی عرب میں حکام کی کوششوں سے غیرمعمولی یا انوکھے ناموں میں کمی واقع ہوئی ہے، جنہوں نے اجنبی اور عجیب و غریب نام رکھنے سے روکنے کے لیے قوانین نافذ کیے ہیں۔

یہاں سب سے زیادہ رکھے جانے والے ناموں میں محمد، فہد، عبداللہ، عبدالرحمان، ترکی، بندر، عمر، علی، فاطمہ، عائشہ، نورا، حیسا، شیخہ اور ماہا شامل ہیں۔ عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق ایسے والدین کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے، جو اپنے بچوں کو عجیب قسم کے ناموں سے پکارتے ہیں، ان میں لڑکوں کے لیےرشاش (ایک بندوق کی مشین)، زقم (چیخنا چلانا)، اور نجّار شامل ہیں۔

(جاری ہے)

اسی کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کے لیے فضیحہ (جو خوفزدہ ہو) اور مریبہ (ہولناک) کے نام شامل ہیں۔ ان دنوں والدین اچھے ناموں کے لیے اپنی ترجیحات کے انتخاب میں مدد لینے کے سلسلے میں ڈکشنریوں سے مدد لیتے ہیں، جو کتابوں کی بہت سی دکانوں اور لائبریریوں میں دستیاب ہیں۔ اس حوالے سے رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ مرد جنہیں بیٹے کی پیدائش کی امید ہوتی ہے، اور جب ان کی بیویاں لڑکیوں کو جنم دیتی ہیں تو وہ ناراض ہوجاتے ہیں۔

ایسے معاملات میں وہ عموماً اپنی بیٹیوں کے لیے مکروہ ناموں کا انتخاب کرتے ہیں۔تاہم ایسے مؤقف کو معاشرے کے اندر آگاہی میں اضافے کی وجہ سے مسترد کیا جارہا ہے۔ سوشل اسٹیٹس ڈیپارٹمنٹ جیسے ادارے عجیب و غریب ناموں کو تبدیل کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ اس ڈیپارٹمنٹ کے مطابق ایسے لوگ جو اپنے ناموں کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں، ان میں نوجوان مردو خواتین کی اکثریت ہے۔

عجیب و غریب ناموں کی بنا پر شرمندگی سے بچنے کے لیے لوگوں کی مدد کی خاطر ناموں کی ایک فہرست شایع کی گئی ہے، جس میں دیے گئے ناموں کو کسی بھی صورتحال میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کنگ سعود یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ایمان السعید یقین رکھتی ہیں کہ انسانوں کا ان کے ناموں سے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’کسی شخص کا نام اس کے نفسیاتی صورتحال کا ایک اہم حصہ ہوتا ہے۔

کچھ نام سن کر ہنسی چھوٹ سکتی ہے، اور طنزو مزاح پر اکسا سکتے ہیں، یا کراہت آمیز یا بدوضع ہوسکتے ہیں۔ ایسے نام لوگوں کے لیے نقصاندہ اور اس کے لیے خوداعتمادی میں کمی کا سبب بن سکتے ہیں۔ ڈاکٹر ایمان کہتی ہیں کہ ’’اس طرح کے معاملات میں فرد اُداس ہوجاتا ہے اور تنہا رہنا پسند کرتا ہے۔ اس طرح کے احساسات کسی فرد کو اپنے خاندان کے افراد اور دوستوں سے دور کردیتے ہیں۔

‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’ایک مسلمان کا یہ قانونی حق ہے کہ اس کا اچھا اور قابلِ احترام نام دیا جائے۔‘‘ سول اسٹیٹس ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان محمد الجسیر کہتے ہیں کہ نومولود بچوں کے نام رکھنے کے سلسلے میں قوانین اور کنٹرول موجود ہے۔ انہوں نے کہا ’’ہم شہریوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنے نومولود بچوں کا نام شریعت کے مطابق رکھیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس ڈیپارٹمنٹ نے اس سلسلے میں ہمیشہ ہدایات جاری کی ہیں۔

متعلقہ عنوان :