سپریم کورٹ نے تارکین وطن کو در پیش مسائل کے حل کے لئے اٹارنی جنرل سے مجوزہ اقدامات بارے 27 مارچ تک رپورٹ طلب کر لی،

حکومت اگرتارکین وطن کے مسائل حل نہیں کر سکتی تو پھر کس طرح ان کے بھجوائے گئے قیمتی زرمبادلوں کو استعمال کر رہی ہے۔ ان کے مسائل اگرحل نہ کئے گئے تو عدالت زرمبادلہ کے استعمال سے حکومت کو روک دے گی، جسٹس جواد ایس خواجہ کے ریما رکس

جمعہ 13 مارچ 2015 22:23

سپریم کورٹ نے تارکین وطن کو در پیش مسائل کے حل کے لئے اٹارنی جنرل سے ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔13مارچ۔2015ء) سپریم کورٹ نے تارکین وطن کو ائیرپورٹ سمیت دیگر اداروں سے پیش آنے والے مسائل کے حل کے لئے اٹارنی جنرل سے مجوزہ اقدامات بارے 27 مارچ تک رپورٹ طلب کر لی‘ جبکہ تین رکنی بنچ کے سربراہ سینئر جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ اربوں روپے کا زرمبادلہ بھجوانے والے تارکین وطن کو اندرون اور بیرون ملک بہت سے مسائل کا سامنا ہے ان کی زمینوں پر قبضے ہو جاتے ہیں وہ باہر بیٹھ کر مقدمہ بازی پر مجبور ہیں۔

حکومت اگر ان کے مسائل حل نہیں کر سکتی تو پھر کس طرح سے ان کے بھجوائے گئے قیمتی زرمبادلوں کو استعمال کر رہی ہے۔ اگر ان کے مسائل حل نہ کئے گئے تو عدالت زرمبادلہ کے استعمال سے حکومت کو روک دے گی۔

(جاری ہے)

یہ بے معنی کاغذی دوستی ہمیں نہیں چاہئے حکومت تارکین وطن کے مسائل حل کرے۔ انہوں نے اپنے ریمارکس میں جمعہ کو مزید کہا کہ تارکین وطن کی ائیرپورٹ حالت زار میں کمی نہیں آئی اگر میمو گیٹ سکینڈل میں منصور اعجاز کی شہادت وڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کی جا سکتی ہے تو تارکین وطن کو قانون سازی کے ذریعے ایسی سہولت کیوں نہیں دی جا سکتی۔

ہم نے اداروں کی کارکردگی دیکھ لی ہے وفاقی اور صوبائی وزارت قانون کی کارکردگی بھی ہمارے سامنے ہے کسی سے کیا توقع رکھیں۔ اس دوران اٹارنی جنرل پاکستان سلمان بٹ نے عدالت کو بتایا کہ حکومت تارکین وطن دوستی پالیسی پر عمل پیرا ہے ترجیحی بنیادون پر ان کے مسائل کے حل کی کوشش کی جا رہی ہے ان کو ووٹ کا حق دینے کے لئے بھی معاملات پر کام جاری ہے۔

بیرون ملک موجود پاکستانی سفیروں کو بھی اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ تارکین وطن کے مسائل حل کریں جبکہ ائیرپورٹ پر انتظامیہ کو بھی اس بات کا پابند بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ انہیں ہر طرح سے سہولیات دی جائیں۔ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کی ترقی میں تارکین وطن کا بڑا کردار ہے اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ یہ تو بے معنی اور کاغذی دوستی ہے ہمیں یہ نہیں چاہئے۔

حکومت مسائل حل کرے ان بیچاروں کا حال یہ ہے کہ وہ بیرون ملک بیٹھ کر مقدمہ بازی پر مجبور ہوتے ہیں پاکستان میں ان کی زمینوں ان کے کاروبار اور دیگر معاملات پر قبضے کر لئے جاتے ہیں اور جب وہ ان مسائل کے حل کے لئے ملک میں آتے ہیں تو انہیں ائیرپورٹ سمیت دیگر جگہوں پر اور اداروں سے ایک نئی پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دنیا کی دیگر زبانوں میں تو ہدایت نامے موجود ہوتے ہیں مگر پاکستانیوں کو سمجھانے کے لئے اردو زبان میں کوئی چیز موجود نہیں ہوتی۔

بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ تارکین وطن پاکستان پہنچ جاتے ہیں مگر ان کا سامان غائب ہو جاتا ہے۔ وہ مختلف پریشانیوں کا شکار ہیں۔ بعد ازاں انہوں نے اٹارنی جنرل پاکستان کو ہدایت کی ہے کہ وہ ائیرپورٹ سمیت تمام متعلقہ اداروں سے میٹنگ کریں اور تارکین وطن کی پریشانیوں کے خاتمے اور سہولیات کی فراہمی کے لئے اقدامات تجویز کریں اور اس کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کریں۔ عدالت نے مقدمے کی مزید سماعت 27 مارچ تک ملتوی کر دی۔

متعلقہ عنوان :