سزائے موت پانیوالے مجرم صولت مرزا کے اہل خانہ کا کراچی پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ ،

انسانی حقوق کی رہنما عاصمہ جہانگیر ،انصاربرنی اور دیگر تنظیمیں اس کیس میں میرا ساتھ کیوں نہیں دے رہے جواب دیں ،بیگم صولت مرزا ، ہماری نظر ثانی کی اپیل سپریم کورٹ میں ہے تو پھر کس قانون کے تحت صولت مرزا کی سزا پر عملدرآمد کیلئے ڈیتھ وارنٹ جاری کئے گئے ، ہم صرف مہاجر ہیں ،متحدہ قومی موومنٹ سے کوئی تعلق نہیں ،لاتعلقی سے متعلق ایم کیو ایم سے پوچھا جائے ،مظاہرے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو

ہفتہ 14 مارچ 2015 19:38

سزائے موت پانیوالے مجرم صولت مرزا کے اہل خانہ کا کراچی پریس کلب کے باہر ..

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔14مارچ۔2015ء) کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کے سابق ایم ڈی شاہد حامد کے قتل میں سزائے موت پانے والے مجرم صولت مرزا کے اہل خانہ نے ہفتہ کو کراچی پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا ۔مظاہرے میں ان کی اہلیہ اور بہنیں شامل تھیں جنہوں نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے ،جن پر نعرے درج تھے کہ ناکردہ جرم کتنے بھائیوں کو ملے گی ، بیک وقت سزائیں خلاف قانون ہیں ،صولت مرزا بے گناہ ہے ۔

مظاہرے میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بیگم نکہت صولت مرزا نے کہا کہ تین دن سے عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں ۔ہائی کورٹ گئے تو عدالت نے کہا کہ آپ کا کیس سپریم کورٹ میں ہے آپ عدالت عظمیٰ سے رجوع کریں ۔اس کیس کے حوالے سے انہوں نے میڈیا کو کرائم برانچ کے ڈی آئی جی کی رپورٹ دکھائی اور کہا کہ اس رپورٹ میں بھی کہا گیا ہے کہ صولت مرزا کے خلاف اس کیس میں کوئی ثبوت نہیں ہے اور بیگم شہناز حامد نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ جس وقت شاہد حامد کا قتل ہوا میں گھر پر تھی ۔

(جاری ہے)

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شہناز حامد نے دو الگ الگ بیانات دیئے ہیں ۔دوسرے جھوٹے بیان کی روشنی میں صولت مرزا کو سزا کس قانون کے تحت دی جارہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس کیس کے حوالے سے کوئی آواز بلند نہیں کررہی ہیں ۔انہوں نے انسانی حقوق کی رہنما عاصمہ جہانگیر ،انصاربرنی اور دیگر تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ انسانی حقوق کے لیے ہمیشہ آواز بلند کرتے ہیں وہ اس کیس میں میرا ساتھ کیوں نہیں دے رہے ہیں اس کا جواب دیں ۔

17سال سے صولت مرزا جیل میں ہے وہ عمرقید سے بھی زیادہ سزا کاٹ چکا ہے ۔جب اس کیس کا کوئی عینی شاہد ہی نہیں ہے اور ہماری نظر ثانی کی اپیل سپریم کورٹ میں ہے تو پھر کس قانون کے تحت صولت مرزا کی سزا پر عملدرآمد کے لیے ڈیتھ وارنٹ جاری کیے گئے ہیں ۔بیگم صولت مرزا نے کہا کہ اگر ہم جھوٹے ہیں تو ہمارا کیس ملک کے نامور وکلاء اکرم شیخ ایڈووکیٹ ،عزیز اللہ ایڈوکیٹ اور لطیف کھوسہ نے کیوں لڑا ہے ۔

اس وقت لطیف کھوسہ ہمارے وکیل ہیں ۔پیر کو سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے ۔چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کرتی ہوں کہ ایک مرتبہ تمام شواہد کا جائزہ لیں اور قانون کے مطابق اس کیس پر فیصلہ صادر فرمائیں ۔انہوں نے کہا کہ ڈیتھ وارنٹ کے اجراء کے بعد اب تک صولت مرزا سے ہماری مچھ جیل میں ملاقات نہیں ہوئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم کراچی کے شہری ہیں ۔صولت مرزا مچھ جیل میں ہے اس کو وہاں سزا کیوں دی جارہی ہے ۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ صولت مرزا کو کراچی منتقل کیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ تاحال صولت مرزا کے بھائی فرحت اللہ خان لاپتہ ہیں ۔ان کی بازیابی کے لیے بھی حکومت اقدامات کرے ۔انہوں نے کہا کہ ہم صرف مہاجر ہیں ۔ہمارا متحدہ قومی موومنٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ان سے سوال کیا گیا کہ ایم کیو ایم نے صولت مرزا سے لاتعلقی کا اعلان کردیا ہے ،جس پر انہوں نے کہا کہ اس کا جواب ایم کیو ایم والے دیں گے ۔

میں اپنا کیس میڈیا کے سامنے لائی ہوں میرا کیس میڈیا حکام بالا کے سامنے رکھے ۔ان سے سوال کیا گیا کہ آپ کی آخری ملاقات کب ہوئی اور صولت مرزا نے کیا ردعمل دیا تھا ؟ اس پر انہوں نے کہا کہ جنوری 2015میں مچھ جیل میں ہماری آخری ملاقات ہوئی ۔اس ملاقات میں صولت مرزا مکمل طور پر سکون کی حالت میں تھے اور ان کے آخری الفاظ تھے کہ میں نے اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کردیا ہے ۔

خدا کے ہاں دیرہے اندھیر نہیں ۔اگر میں نے یہ قتل نہیں کیا ہے تو آخرت میں سرخرو ہوں گا ۔صولت مرزا نے وکٹری کا نشان بنایا تھا اور کہا تھا کہ ہم ضرور جیتیں گے ۔انہوں نے کہا کہ میں آخری دم تک اپنے شوہر کے لیے لڑوں گی اور مجھے چیف جسٹس آف پاکستان سے امید ہے کہ وہ مجھے انصاف دیں گے ۔منگل یا بدھ کو صولت مرزا سے ملاقات کے لیے مچھ روانہ ہوسکتے ہیں ۔

انہوں نے صدر پاکستان ،وزیراعظم ،وفاقی وزیر داخلہ ،آرمی چیف اور چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی کہ خدا کے واسطے مجھ پر رحم کریں اور میرے کیس کو ایک مرتبہ سن لیں ۔اگر صولت مرزا کو پھانسی ہوگئی تو پھر ہم بھی انتہائی ردعمل کے طور پر پھانسیوں پر چڑھ جائیں گے ۔انہوں کہا کہ بیگم شہناز حامد اور عمر شاہد حامد سے تاحال رابطہ نہیں ہوا ہے ۔انہوں نے عمر شاہد حامد سے ہاتھ جوڑتے ہوئے درخواست کی کہ 17سال تک میرے شوہر نے جھوٹے الزام میں سزا کاٹی ہے ۔اب تو خدا کے واسطے وہ منظر عام پر آجائیں اور یہ بیان دیں کہ جس وقت ان کے والد کا قتل ہوا تھا اس وقت وہ لوگ گھر پر تھے ۔ان کی اس گواہی سے میرے شوہر صولت مرزا کی بے گناہی ثابت ہوسکتی ہے ۔