پاکستان میں بجلی کا بحران 2019میں بھی ختم نہیں ہو گا‘ معاشی اصلاحاتی ایجنڈے کے مطلوبہ نتائج نہ ملنے پر آئی ایم ایف نیا قرضہ پروگرام معطل کر سکتا ہے ‘اس صورت میں عالمی بینک بھی کنٹری پارٹنر شپ سٹریٹیجی کے تحت 11 ارب ڈالر کا ترقیاتی قرضے کا پروگرام روک دیگا‘ سیاسی بحران ، کرپشن میں اضافہ، پالیسیوں پر عدم عملدرآمد، ترسیلات زر میں کمی، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی سست روی‘ بیرونی تجارتی تبدیلیوں، برآمدات میں شدید کمی اور قدرتی آفات معاشی اصلاحات کے ایجنڈے کی کامیابی کیلئے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں‘ حکومت پاکستان کو عالمی بینک سے کنٹری پارٹنر شپ سٹرٹیجی کے تحت 2015 تا 2019میں 11ارب ڈالر کے سستے ترقیاتی قرضے کے حصول کیلئے بجلی پر سبسڈی میں 78فیصد کمی، بلوں کی وصولی 86 فیصد سے بڑھا کر94فیصد ‘3ڈسکوز سمیت 5بڑے قومی اداروں کی نجکاری کرنا ہو گی‘ پروگرام پر تسلسل سے عملدرآمد کی صورت میں 2019بجلی کی لوڈشیڈنگ کم ہو کر 5تک رہنے کا امکان ہے،عالمی بینک کی پاکستان بارے تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف

اتوار 15 مارچ 2015 19:52

پاکستان میں بجلی کا بحران 2019میں بھی ختم نہیں ہو گا‘ معاشی اصلاحاتی ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔15 مارچ۔2015ء) بجلی کا بحران 2019میں بھی ختم نہیں ہو گا، معاشی اصلاحاتی ایجنڈے کے مطلوبہ نتائج نہ ملنے پر آئی ایم ایف نیا قرضہ پروگرام معطل کر سکتا ہے جبکہ اس صورت میں عالمی بینک بھی کنٹری پارٹنر شپ سٹریٹیجی کے تحت 11 ارب ڈالر کا ترقیاتی قرضے کا پروگرام روک دے گا، سیاسی بحران ، کرپشن میں اضافہ، پالیسیوں پر عدم عملدرآمد، ترسیلات زر میں کمی، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی سست روی، بیرونی تجارتی تبدیلیوں، برآمدات میں شدید کمی اور قدرتی آفات معاشی اصلاحات کے ایجنڈے کی کامیابی کیلئے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں، حکومت پاکستان کو عالمی بینک کے ساتھ کنٹری پارٹنر شپ سٹرٹیجی کے تحت 2015تا 2019کے دوران 11ارب ڈالر کے سستے ترقیاتی قرضے کے حصول کیلئے بجلی پر سبسڈی میں 78فیصد کمی، بلوں کی وصولی 86فیصد سے بڑھا کر94فیصد جبکہ تین ڈسکوز سمیت پانچ بڑے قومی اداروں کی نجکاری کرنا ہو گی، پروگرام پر تسلسل کے ساتھ عملدرآمد کی صورت میں 2019بجلی کی لوڈشیڈنگ کم ہو کر 5تک رہنے کا امکان ہے،عالمی بینک کی پاکستان بارے تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف۔

(جاری ہے)

گزشتہ روز عالمی بینک کی پاکستان کے بارے میں جاری ہونے والی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں معاشی بحالی کا عمل شروع ہو چکا ہے، آئی ایم ایف نے 6.65ارب ڈالر کے نئے قرضہ پروگرام کی منظوری دے دی جبکہ دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے پاکستان پر اعتماد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں گزشتہ حکومت کے پانچ سال کرنے،2013میں عام انتخابات کے ذریعے حکومتی تبیدلی اور 2010 میں 18ویں ترمیم جبکہ2011-12میں اس کے تحت 18وزارتوں کے 44محکمے صوبوں کو منتقل کرنے کے اقدامات کو مثبت قرار دیا گیا ہے۔

عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں موجود حکومت کے معاشی اصلاحاتی ایجنڈے کو سراہا ہے، جس کے تحت تین سال کے دوران مالیاتی خسارہ کم کر کے 4فیصد تک لانا، جی ڈی پی کے مقابلے میں سرمایہ کاری کی شرح 58فیصد اور ٹیکسوں کی شرح 13.5فیصد جبکہ جی ڈی پی میں اضافے کی شرح 6فیصد تک لانا ہے اور رعائتی ایس آر اوز کا خاتمہ کرنا ہے تاہم پاکستان کے معاشی اصلاحاتی ایجنڈے کو بعض خطرات لاحق ہیں جن میں سیاسی بحران، سرکاری و نجی شعبے میں کرپشن میں اضافہ، پالیسیوں پر عدم عملدرآمد، ترسیلاب زر میں کمی، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں سست اضافہ، بین الاقوامی تجارت کا اتار چڑھاؤ، برآمدات میں شدید کمی اور قدرتی آفات سرفہرست ہیں کیونکہ ماضی میں بھی پاکستان کو قدرتی آفتاب کی وجہ سے ناقابل تلافی نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔

رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ اگر معاشی اصلاحاتی ایجنڈے کے مثبت نتائج برآمد نہ ہوئے تو آئی ایم ایف 6.65ارب ڈالر نئے قرضے کا پروگرام معطل کر سکتا ہے جبکہ اس صورتحال میں عالمی بینک بھی کنٹری پارٹنر شپ سٹریٹیجی کے تحت 11ارب ڈالر سستے ترقیاتی قرضے کا پروگرام بھی روک دے گا۔ عالمی بینک نے کہا ہے کہ کنٹری پارٹنر شپ سٹریٹیجی کے تحت پاکستان کو2015تا 2019کے دوران توانائی کے بحران کے خاتمے، معیشت کی بہتری، انتہا پسندی میں کمی لانے اور تعلیم کے فروغ کیلئے11ارب ڈالر کا سستا ترقیاتی قرضہ فراہم کریں گے، جس پر تسلسل کے ساتھ عملدرآمد کی صورت میں 2019میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کم ہو کر 5گھنٹے جبکہ بجلی کی پیداواری لاگت 12سینٹ سے کم ہو کر 10سینٹ فی یونٹ پر آ جائے گی، تاہم مذکورہ قرضے کے حصول کیلئے آئندہ چار سال کے دوران حکومت پاکستان کو بجلی پر دی جانے والی سبسڈی کی رقم جی ڈی پی کے مقابلے میں 1.8فیصد سے گھٹا کر 0.4فیصد کرنا ہو گی، یعنی اس میں 78فیصد کمی کرنا ہو گی جبکہ اس کے علاوہ تین بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں(ڈسکوز) سمیت5بڑے قومی اداروں کی نجکاری کرنا ہو گی۔