لاہور،سانحہ یوحنا آباد کیخلاف مسیحیوں کادوسرے روز بھی احتجاج ،لاہور میں پر تشدد مظاہروں کے بعد رینجرز کو طلب کر لیاگیا،مشتعل مظاہرین نے فیروز پور روڈ اور میٹرو بس روٹ سمیت مختلف مقامات پر شاہراہوں کو بلاک کر دیا ،ٹریفک کا نظام گھنٹوں معطل رہا ،یوحنا آباد ‘فیروز پور روڈ اور میٹرو بس ٹریک پر مشتعل مظاہرین نے توڑ پھوڑ کرنے کیساتھ پولیس اور عام شہریوں کی گاڑیوں پر بھی شدید پتھراؤ کیا ،مظاہرین نے پولیس اہلکاروں کو بھی بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا،آنسو گیس کی شیلنگ اور واٹر کینن کے استعمال سے مظاہرین بپھر گئے،پنجاب حکومت اور مسیحی رہنماؤں میں مذاکرات کامیاب ہونے اور رینجرز کے دستوں کے پہنچنے کے بعد حالات معمول پر آگئے

پیر 16 مارچ 2015 22:06

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔16 مارچ۔2015ء) سانحہ یوحنا آباد کیخلاف مسیحیوں نے دوسرے روز بھی ملک کے مختلف مقامات پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا ،لاہور میں پر تشدد مظاہروں کے بعد ضلعی انتظامیہ کی درخواست پر پنجاب حکومت نے رینجرز کو طلب کر لیا ،مشتعل مظاہرین کی طرف سے فیروز پور روڈ اور میٹرو بس روٹ سمیت مختلف مقامات پر شاہراہوں کو بلاک کر دیا گیا جس سے ٹریفک کا نظام گھنٹوں معطل رہا ،یوحنا آباد ‘فیروز پور روڈ اور میٹرو بس ٹریک پر اکٹھے ہونے والے مشتعل مظاہرین نے توڑ پھوڑ کرنے کے ساتھ پولیس اور عام شہریوں کی گاڑیوں پر بھی شدید پتھراؤ کیا جبکہ مظاہرین نے پولیس اہلکاروں کو بد ترین تشدد کا نشانہ بھی بنایا،پولیس کی جانب سے آنسو گیس کی شیلنگ اور واٹر کینن کا استعمال سے بھی مظاہرین منتشر نہ ہوئے ،پنجاب حکومت اور مسیحی رہنماؤں میں مذاکرات کامیاب ہونے اور رینجرز کے دستوں کے پہنچنے کے بعد حالات معمول پر آگئے ۔

(جاری ہے)

تفصیلات کے مطابق یوحنا آباد میں دو گرجا گھروں پر خود کش حملوں کیخلاف مسیحیوں نے پنجاب سمیت ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج کا سلسلہ دوسرے روز بھی جاری رہا ، صوبائی دارالحکومت لاہور میں مسیحیوں کی ایک بڑی تعداد ڈنڈوں سے لیس ہو کر یوحنا آباد کے اندر ، فیروز پور روڈ اور میٹرو بس ٹریک پر جمع ہو گئی جنہوں نے دھرنا دے کر ہر طرح کی ٹریفک کو روک دیا اور زبردستی گزرنے کی کوشش کرنے والی گاڑیوں پر ڈنڈے برسائے ۔

ضلعی انتظامیہ کی طرف سے میٹرو بس سرو س کو محدود کر کے احتجاج کے مقام تک آنے سے روکدیا گیا ۔ یوحنا آباد کے اندر جمع ہونے والے مظاہرین وقفے وقفے سے احتجاج کرتے ہوئے حکومت اور پولیس کے خلاف نعرے بازی کرتے رہے ۔ اس دوران پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے افسران مظاہرین سے مذاکرات کی کوشش کرتے رہے لیکن وہ اس میں ناکام رہے ۔ دوپہر کے بعد فیروز پور روڈ پر مظاہرین نے ایک کار سوار خاتون کی گاڑی کو روک لیا ،خاتون کی طرف سے خوفزدہ ہو کر وہاں سے نکلنے کی کوشش پر مظاہرین نے گاڑی پر ڈنڈے برسانے اور پتھراؤ شروع کردیا جس کے بعد خاتون نے گاڑی بھگا دی جس سے سات مظاہرین گاڑی کی زد میں آکر شدید زخمی ہو گئے جنہیں طبی امداد کے لئے ہسپتال پہنچایا گیا تاہم ان میں سے 15سالہ عامر ندیم اور 12سالہ دانش زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے ۔

واقعے کے بعد مظاہرین مشتعل ہو گئے اور شدید پتھراؤ کا سلسلہ شروع کر دیا ۔ اس دوران مشتعل مظاہرین نے عام شہریوں اورمیڈیا کی گاڑیوں پر بھی پتھراؤ کیا جبکہ مظاہرین کے دو گروپ بھی آمنے سامنے آ گئے اور ایک دوسرے پر پتھراؤ کرتے رہے جس سے 14کے قریب افراد زخمی ہو گئے جنہیں طبی امداد کے لئے ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ مشتعل مظاہرین نے یوحنا آباد کے اندر ڈیوٹی سر انجام دینے والے پولیس اہلکاروں سے ڈنڈے چھین لئے اور انہیں بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا جبکہ فیروز پور روڈ اور میٹرو بس کے روٹ پر بھی پولیس اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔

اس دوران پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس کی شیلنگ اور واٹر کینن کا استعمال کیا گیا تاہم مظاہرین مزید مشتعل ہو گئے اور پتھراؤ کا سلسلہ شدید کر دیا ۔ یوحنا آباد کے علاقہ میں دو مسیحی گروپوں کے درمیان بھی فائرنگ کا تبادلہ ہوا لیکن مداخلت کے بعد یہ سلسلہ رک گیا ۔ بعد ازاں سابق وزیر قانون رانا ثنا للہ خان ، صوبائی وزیر اقلیتی امور خلیل طاہر سندھو ، کمشنر لاہور ڈویژن عبد اللہ سنبل اور ڈی سی او لاہور کیپٹن (ر) محمد عثمان مسیحی رہنماؤں سے مذاکرات کے لئے پہنچے تاہم مظاہرین نے انکی گاڑیوں کو روک لیااور گاڑیوں کو اندر جانے کی اجازت نہ دی جسکے بعد حکومتی شخصیات اور ضلعی انتظامیہ کے افسران کو پیدل سفر کر کے مذاکرات کے مقام پر پہنچنا پڑا ۔

پنجاب حکومت کے نمائندوں نے مسیحی رہنماؤں سے سانحہ یوحنا آباد پر دلی افسوس کا اظہار کیا اور ان سے تعزیت کی جبکہ اس موقع پر وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کی بھی مسیحی رہنماؤں سے ٹیلیفون پر بات کرائی گئی ۔ مذاکرات میں طے پایا کہ سانحہ کی تحقیقات کے لئے اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی جائے گی ، مسیحیوں کی عبادتگاہوں کی سکیورٹی میں مزید اضافہ کیا جائے گا ۔

رانا ثنا اللہ خان کے مطابق مذاکرات کی کامیابی کے بعد مسیحی رہنما مشتعل مظاہرین کو منانے کے لئے خود روانہ ہوئے ۔ قبل ازیں ضلعی انتظامیہ کی درخواست پر پنجاب حکومت نے امن و امان کے قیام کی غرض سے رینجرز کو بھی طلب کر لیا اور تین کمپنیوں نے متاثرہ علاقوں میں پہنچ کر کنٹرول سنبھال لیا جس سے حالات کنٹرول میں آنا شروع ہو گئے جبکہ اس موقع پر پولیس کے تازہ دم دستے بھی وہاں پہنچ گئے ۔

رینجرز کی آمد کے بعد مظاہرین منتشر ہونا شروع ہو گئے اور ایک طرف ہو کر پرامن ہو کر بیٹھ گئے ۔ علاوہ ازیں فیصل آباد کے ملت روڈ پرمسیحی برادری کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا اورمشتعل افراد نے ٹائر جلا کر سڑک کو ٹریفک کے لئے بلاک کردیا۔مظاہرین نے فیصل آباد موٹر وے پر کمال پور انٹر چینج کو بھی بلاک کردیا۔بعد ازاں مظاہرین ضلع کونسل چوک کی جانب بڑھے اوراحتجاج میں مصروف رہے ۔

کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں احتجاجاً مشنری اسکولز بند رکھے گئے اور احتجاجی مظاہرے بھی کئے گئے ۔ کوئٹہ میں کیتھولک بورڈ آف ایجوکیشن انتظامیہ کی جانب سے مشنری اسکولز بند رہے۔ پاکستان نرسنگ فیڈریشن بلوچستان کی جانب سے یوحنا آباد خودکش دھماکوں کے خلاف 3 روزہ سوگ منایا جارہا ہے اور تمام نرسیں بازوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر ڈیوٹی دینے کے لئے ہسپتالوں میں آئیں ۔

فرانسیس آباد، اعوان چوک، شیرانوالہ باغ اور دیگر علاقوں سے بھی ریلیاں نکالی گئیں۔ مظاہرین نے پنڈی بائی پاس چوک پر پہنچ کر دھرنا دیا۔ شرکا گاڑیوں پر ڈنڈے برساتے رہے اوردکانیں بھی بند کرا دی ۔ احتجاج کے دوران مشروب ساز ادارے کی گاڑی بھی لوٹ لی گئی۔ مظاہرین نے چن دا قلعہ بائی پاس چوک بلاک کر کے بھی دھرنا دیا جس کے باعث گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں۔

پولیس نے مشتعل افراد کو توڑ پھوڑ سے روکا تو جھڑپیں شروع ہو گئیں جس پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور پندرہ افراد کو حراست میں بھی لے لیا گیا۔مسیحیوں نے بھٹہ چوک میں بھی احتجاج کیا ۔ مظاہرین نے بھٹہ چوک سے ائیرپورٹ کی طرف جانے والے راستے بند کر دئیے جس کے باعث بھٹہ چوک میں گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں ۔ مسیحی برادری نے کینال روڈ ،گلبرگ ،بند روڈ ، بھٹہ چوک سمیت مختلف مقامات پر بھی احتجاج کیا جس سے ٹریفک کا نظام گھنٹوں معطل رہا ۔مظاہرین نے مکہ کالونی گلبرگ سے فردوس مارکیٹ تک ریلی بھی نکالی۔ مظاہرین نے ٹھوکر نیاز پر موٹر وے کا انٹر ی پوائنٹ بند کر دیا جسکی وجہ سے کئی گھنٹے تک کوئی بھی گاڑی موٹر وے پرنہ چڑھ سکی۔