پی اے سی کی ذیلی کمیٹی میں ریلوے کی 187 مرلہ زمین سابق کمشنر کی بیوہ کو سی این جی سٹیشن کیلئے سستے داموں فروخت کئے جانے کا انکشاف ، کمیٹی کا شدید اظہار برہمی، وزارت قانون و انصاف سے رائے طلب کرلی ،معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہونے کے باعث نیب میں نہ بھجوایا جا سکا، پاکستان ریلوے کے کروڑوں روپے کے آڈٹ اعتراضات نمٹا دیئے، وزارت ریلوے سے ملک بھر میں ریلوے اراضی،قبضہ اور لیز کی تفصیلات طلب

منگل 17 مارچ 2015 19:11

پی اے سی کی ذیلی کمیٹی میں ریلوے کی 187 مرلہ زمین سابق کمشنر کی بیوہ کو ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔17 مارچ۔2015ء) پبلک اکاؤنٹس کمیٹی( پی اے سی ) کی ذیلی کمیٹی میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پنجاب حکومت نے ریلوے کی 187 مرلہ زمین سابق کمشنر کی بیوہ کو سی این جی سٹیشن ،پٹرول پمپ کیلئے 1لاکھ روپے فی مرلہ کے حساب سے فروخت کر دی، کمیٹی کا شدید اظہار برہمی،معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہونے کے باعث نیب میں بھجوایا نہ جا سکا، کمیٹی نے وزارت قانون و انصاف سے رائے طلب کرلی،ذیلی کمیٹی نے پاکستان ریلوے کے کروڑوں روپے کے آڈٹ اعتراضات نمٹا دیئے ، کمیٹی نے وزارت ریلوے سے ملک بھر میں ریلوے اراضی،قبضہ اور لیز کی تفصیلات طلب کرلیں۔

منگل کو ذیلی کمیٹی کا اجلاس کنوینئر کمیٹی سردار عاشق حسین گوپانگ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔

(جاری ہے)

اجلاس میں وزارت ریلوے کے متعلق مالی سال 2007-08 کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ پاکستان ریلوے نے کراچی میں کم قیمت پر زمین لیز دے کر 9کروڑ31لاکھ روپے کا نقصان کیا ہے، جس پر سیکرٹری وزارت ریلوے پروین آغا نے موقف اختیار کیا کہ زمین کی لیز درست انداز میں دی گئی ہے، اسے نقصان قرار نہیں دیا جا سکتا، جس پر کمیٹی نے آڈٹ اعتراض نمٹا دیا۔

آڈٹ حکام نے بتایا کہ لاہور میں 36ہزار اسکوائر فٹ زمین استعمال میں نہ لا کر30لاکھ روپے کا نقصان کیا گیا، جس پر کمیٹی نے کہا کہ شکر ہے زمین پر قبضہ نہیں اور معاملہ نمٹا دیا۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ ریلوے نے کراچی میں بل بورڈ کو نہ ہٹوا کر99لاکھ روپے کا نقصان کیا، سیکرٹری وزارت ریلوے نے اسے تسلیم کیا کہ 48بل بورڈ کی معیاد پوری ہو چکی تھی جن میں سے 16 ہٹائے نہ جاسکے ،معاملے کی انکوائری کر کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے گی، سیکرٹری کی یقین دہانی پر کمیٹی نے معاملہ نمٹادیا۔

آڈٹ حکام نے بتایا کہ بلوچستان حکومت کو 55کروڑ روپے مالیتی زمین دی گئی اور رقم وصول نہیں کی گئی، سیکرٹری وزارت ریلوے نے بتایا کہ بلوچستان حکومت سے بات چیت چل رہی ہے، وزیر اعلیٰ بلوچستان نے رقم کی ادائیگی کی یقین دہانی کرائی ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ گوادر میں زمین دے کر معاملے کا حساب کتاب برابر کر دیا جائے گا، کمیٹی نے بلوچستان حکومت کے ساتھ معاملہ نمٹانے کی ہدایت کر دی۔

آڈٹ حکام نے بتایا کہ ریلوے کی 15کروڑ 42لاکھ روپے مالیتی زمین پر قبضہ ہے، جس پرریلوے حکام نے بتایا کہ قبضہ چھڑوالیا گیا ہے اور زمین کے معاملات کو ایک پالیسی کے تحت لا رہے ہیں، جس پر کمیٹی نے ہدایت کی کہ 60دنوں میں ملک بھر میں ریلوے کی زمین پر قبضے،لیز اور خالی زمین کی تفصیلات کمیٹی کو پیش کی جائیں۔ کمیٹی میں آڈٹ حکام نے انکشاف کیاکہ منڈی بہاؤالدین نے پنجاب حکومت نے پاکستان ریلوے کی 187 مرلہ زمین سابق کمشنر کی بیوہ کو سی این جی پٹرول پمپ کیلئے 1لاکھ روپے فی مرلہ کے حساب سے فروخت کر دی، جس پر کمیٹی نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔

ریلوے حکام نے بتایا کہ ریونیو ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے زمین کو فروخت کیا، معاملہ عدالت میں لے گئے ہیں، ہمارے پاس زمین کا ریکارڈ موجود ہے، کمیٹی نے معاملہ نیب کو بھجوانے کی کوشش کی تو لاء ڈویژن نے کہا کہ معاملہ کورٹ میں ہے، نیب کو نہیں بھجوایا جا سکتا، جس پر کنوینئر کمیٹی نے کہا کہ ہمارے کیس ہو تو مثال بنادیں مگر لیگل ایڈوائزر ہاتھ پاؤں باندھ دیتے ہیں، کمیٹی نے لاء ڈویژن سے قانونی رائے طلب کرلی۔

آڈٹ حکام نے بتایا کہ ریلوے نے لاہور اسٹیشن پر خلاف ضابطہ کارپارکنگ کا ٹھیکہ دے کر 1کروڑ 7لاکھ روپے کا نقصان کیا، ریلوے حکام نے کہا کہ اس حوالے سے انکوائری کمیٹی بنالی ہے معاملے کی تہہ تک جائیں گے، کمیٹی نے تیس دنوں میں انکوائری کمیٹی کے ذریعے ذمہ داروں کا تعین اور سزا دینے کی رپورٹ کمیٹی میں پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔آڈٹ حکام نے بتایا کہ ریلوے ورکشاپ ڈویژن نے 48لاکھ روپے کی ریکوری کرنا تھی جو کہ ابھی نہیں کی جاسکی، جس پر ریلوے حکام نے بتایا کہ باقی رقم وصول کر لی گئی ہے اور صرف 12لاکھ 59 ہزار روپے رہ گئی ہے ایک ماہ میں ریکور کرلیں گے، کمیٹی نے جلد از جلد ریکوری کروا کے آڈٹ سے تصدیق کروانے کی ہدایت کردی ہے۔

آڈٹ حکام نے بتایا کہ میرپور خاص کھوکھرا پار سیکشن پر زیادہ سلیپر لگا کر3کروڑ 38لاکھ روپے کا نقصان کیا گیا ہے، جس پر ریلوے حکام نے موقف اختیار کیا کہ کنکریٹ کے ہیوی سلیپر لگائے گئے تھے بورڈ میں لے جا کر رائٹ آف کروالیں گے، کمیٹی نے معاملے کو نمٹا دیا۔آڈٹ حکام نے بتایا کہ پی ایچ اے سے لیکوئیڈ ڈیمج کی مد میں ایک کروڑ 62 لاکھ روپے کی ریکوری نہیں کی گئی، ریلوے حکام نے یقین دہانی کروائی کہ معاملے کو جلد حل کرلیا جائے گا، ممبران کے سوالوں کے جواب میں ریلوے حکام نے بتایا کہ بند ٹریکس کو بند کر کے سکریپ فروخت کر رہے ہیں، بعض روٹس کے بارے میں ابھی فیصلہ نہیں ہوا، رکن کمیٹی عذرافضل نے کہا کہ اب تو چھوٹے سٹیشنوں پر بھی قبضہ ہو چکا ہے، بڑے پلرز کا کیا ہو گا، جس پر ریلوے حکام نے کہا کہ پلرز دس فٹ زمین کے اندر ہیں یہ چوری نہیں ہو سکتے، کمیٹی نے ہدایت کی کہ ناکارہ ٹریکس اور پلرز جہاں ہیں جیسے ہیں کی بنیاد پر نیلام کئے جائیں اور پاکستان ریلوے ناقابل استعمال ٹریکس کو ختم کرنے کے حوالے سے پالیسی بنا کر کمیٹی میں پیش کرے۔

آڈٹ حکام نے بتایا کہ غازی بروتھا ٹنل کے باعث پاکستان ریلوے نے سپیڈ لمٹ15کلومیٹر رکھی جس سے 71لاکھ کا نقصان برادشت کرنا پڑا ،جس پر سیکرٹری نے بتایا کہ ٹنل پر بنائے جانے پل کو چیک کرنا تھا زیادہ سپیڈ نہیں رکھ سکتے تھے ،جس کنٹریکٹر سے چیکنگ گیج منگوانی تھی اس نے تاخیر کی جس کی وجہ سے 9سال لگ گے کمیٹی نے معاملے کی مکمل انکوائری کروانے کی ہدایت کر دی ۔

علاوہ ازیں کمیٹی میں ایف آئی اے حکام کی عدم شرکت پر کمیٹی نے شدید برہمی کا اظہار کیا، ڈی جی ایف آئی اے کو خط لکھا جائے کہ افسران کمیٹی اجلاس میں کیوں شریک نہیں ہوئے اور کمیٹی میں کسی اعلیٰ افسر کی ڈیوٹی لگائی جائے، خط کی کاپی سیکرٹری داخلہ کو بھجوانے کی بھی ہدایت کر دی گئی ہے۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ کوئٹہ ڈرائی پورٹ پر سامان سازی کے باعث نیشنل لاجسٹک سیل(این ایل سی) پاکستان ریلوے کا 2کروڑ 47 لاکھ کا نا دہندہ ہے، ریلوے حکام نے بتایا کہ ڈرائی پورٹ استعمال کرنے کے حوالے سے این ایل سی اور ریلوے کے درمیان معاہدہ ہوا ، جس کا پچاس فیصد این ایل سی نے ریلوے کو ادا کرنا تھا، این ایل سی سے معاہدہ کرنے والے ریلوے افسر این ایل سی بورڈ کے سربراہ بن گئے جس کے بعد ادائیگی روک دی گئی، جس پر کمیٹی نے ڈی جی این ایل سی کو خط لکھ کر رقم ریکور کرنے کی ہدایت کی ہے۔