پاکستان میں پولیو کے قطرے پلوانے سے انکاری والدین کو گرفتار کرنے کے عمل کے حامی نہیں․عالمی ادارہِ صحت،

امید ہے کہ پاکستان نے جو ہنگامی اقدامات اپنائے ہیں، وہ رنگ لائیں گے؛سربراہ ڈبلیو ایچ اوبرائے پاکستان مشیل تھیئرغیں

جمعہ 20 مارچ 2015 23:45

پاکستان میں پولیو کے قطرے پلوانے سے انکاری والدین کو گرفتار کرنے کے ..

لندن(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔20مارچ۔2015ء) عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان میں پولیو کے قطرے پلوانے سے انکاری والدین کو گرفتار کرنے کے عمل کا حامی نہیں،یہ ایک جبری عمل ہے اور اس کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔عالمی ادارہ صحت کے پاکستان کے لیے سربراہ مشیل تھیئرغیں نے غیر ملکی نشریاتی ادارے سے بات چیت میں کہا کہ اگر بچوں کو والدین کو گرفتار کیا جائے تو یہ رویوں میں تبدیلی نہیں ہو گی۔

ڈبلیو ایچ او کا یہ بھی کہنا ہے کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران ایسے چار لاکھ بچوں کو قطرے پلائے گئے ہیں جو پچھلے دو سال میں ویکسین پینے سے محروم رہے تھے۔یہ تبدیلی تو نہ ہوئی، یہ تو جبری عمل ہے۔ ہمیں تبدیلی تو لانی ہو گی لیکن ان گرفتاریوں کا کیا اثر ہو گا، اس کا فیصلہ میں ان لوگوں پر چھوڑوں گا جنھوں نے یہ حکمتِ عملی اپنائی ہے۔

(جاری ہے)

انھوں نے کہا کہ ان کا ادارہ ایسی حکمتِ عملی کی حمایت کرتا ہے جس میں عوام کو ساتھ لے کر چلا جائے کیونکہ زبردستی کرنے سے اس کے خلاف ردِ عمل سخت ہو سکتا ہے اور عالمی ادارہ صحت اس عمل کی سفارش نہیں کرتا۔

ہم ہمیشہ آبادیوں میں آگاہی کی مہم اور برادری کے مذہبی اور علاقے کے بااثر لوگوں کے توسط سے اپنا پیغام پہنچانے کی حمایت کرتے ہیں۔ شاید ایسا لگے کہ یہ بیمعنی سی بات ہے جسے ہم سال ہا سال دہراتے ہیں لیکن یہ کامیاب حکمتِ عملی ہے۔ گذشتہ چند ماہ کی مہمات کے دوران فاٹا، صوبہ خیبر پختونخوا اور کراچی کے بعض علاقوں میں چار لاکھ بچوں کو قطرے پلائے گئے ہیں۔

یعنی ان بچوں کی تعداد میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے جن تک ہماری رسائی پہلے نہ تھی۔ یہ ایک بہت بڑی تعداد ہے۔انھوں نے مزید بتایا کہ گذشتہ چند ماہ کی مہمات کے دوران فاٹا، صوبہ خیبر پختونخوا اور کراچی کے بعض علاقوں میں چار لاکھ بچوں کو قطرے پلائے گئے ہیں۔پاکستان پولیو کے مسئلے پر زیادہ توجہ دے رہا ہے۔ پاکستان میں ہر سطح پر اس پر کام کیا جا رہا ہے، خوا وہ وزیرِ اعظم ہوں یا وہ کارکن جو بچوں کو قطرے پلاتا ہو۔

اس عزم کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں لیکن عزم ہے، اس کے باوجود کہ اعداد و شمار اچھے نہیں ہیں۔ 306 کیس ایک بری خبر ہیں۔جب تک پولیو وائرس کا مکمل خاتمہ نہیں ہوتا، پاکستان کو اپنی کوشش جاری رکھنی ہوں گی۔تاہم ڈاکٹر مشیل تھیئرغیں نے یہ بھی کہا پولیو کارکنان کے عزم کو برقرار رکھنے کے لیے ان پر زیادہ توجہ دی جانی چاہیے۔انسدادِ پولیو کارکنان میں جذبہ بہت ہے۔

لیکن ان کارکنان میں کب تک یہ جذبہ برقرار رہ سکتا ہے جب سکیورٹی اور تحفظ کے مسائل حل نہیں ہو پائیں گے۔ پھر بھی میں کہوں گا کہ ان کارکنان میں بچوں کو محفوظ رکھنے کا یقین بہت پختہ ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بہت افسوس ناک بات ہے کہ ان کارکنوں کو وقت پر تنخواہیں نہیں ملتی رہیں لیکن اس کا جائزہ لیا جا چکا ہے اور تنخواہوں کے مسئلے کا حل نکالا گیا ہے۔انھوں نے بتایا کہ جب تک پولیو وائرس کا مکمل خاتمہ نہیں ہوتا، پاکستان کو اپنی کوشش جاری رکھنی ہوں گی۔

متعلقہ عنوان :