تیز رفتار ترین ون ڈے سنچری بنا کر دھماکہ دار انٹری دینے والے شاہد آفریدی کا سفر غیر متاثر کن انداز میں ختم ہوا ‘ بی بی سی

ہفتہ 21 مارچ 2015 12:17

تیز رفتار ترین ون ڈے سنچری بنا کر دھماکہ دار انٹری دینے والے شاہد آفریدی ..

لندن (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔21مارچ۔2015ء) برطانوی نشریاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہاہے کہ اپنے وقت کی تیز رفتار ترین ون ڈے سنچری بنا کر دھماکہ دار انٹری دینے والے شاہد آفریدی کا سفر غیر متاثر کن انداز میں ختم ہوگیا بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق شاہد آفریدی نے 19 برس پہلے کرکٹ کے میدانوں میں اپنے وقت کی تیز رفتار ترین ون ڈے سنچری بنا کر جو دھماکہ دار انٹری دی تھی، آج اتنے ہی غیرمتاثر کن انداز میں اس سفر کا خاتمہ ہو گیا۔

اپنے پہلے ہی میچ میں انھوں نے سری لنکا کے چھکے چھڑاتے ہوئے صرف 37 گیندوں پر سنچری بنا کر ریکارڈ بک میں اپنا نام سنہری حروف میں درج کروا لیا تھا تاہم آسٹریلیا کے خلاف ایڈیلیڈ اوول کے میدان میں وہ صرف 23 رنز ہی بنا پائے۔ 19 برسوں میں شاہد آفریدی نے متعدد گیندبازوں کو اپنی دھواں دھار بلے بازی سے دہشت زدہ کیا، جس کی ایک مثال یہ ہے کہ انھوں نے اپنے کریئر میں ریکارڈ 348 چھکے لگائے یہی نہیں بلکہ طویل ترین اور بلند ترین چھکے کا ریکارڈ بھی انھی کے نام ہے۔

(جاری ہے)

اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنی لیگ سپن بولنگ کے جادو دکھاتے ہوئے 395 وکٹیں بھی حاصل کیں اس کے باوجود آج ان کی بین الاقوامی کریئر کے اختتام پر ان کے پرستار یہ سوال پوچھنے پر مجبور ہیں کہ آفریدی اصل میں بلے باز تھے یا گیند باز؟ یا پھر یہ آدھا تیتر آدھا بٹیر والا معاملہ تو نہیں؟شاید آفریدی تھوڑے بے صبرے تھے۔ وہ آناً فاناً ہی میچ مخالف کے ہاتھ سے یوں چھین لینا چاہتے تھے۔

آج کے پروفیشنل دور میں جارحیت کیلئے بھی جس تحمل اور ٹھنڈے مزاج کی ضرورت ہوتی ہے، شاید آفریدی اس سے عاری تھے۔ اس بے صبری کی وجہ سے وہ تنازعات کی زد میں بھی رہے۔ خاص طور پر بال چبانے اور کرکٹ پچ کو خراب کرنے کے واقعات ان کے کریئر پر دھبے کی مانند ہیں۔کھیل کے میدان میں آفریدی کی جو بھی خامیاں رہی ہوں تاہم یہ بات ماننا پڑے گی کہ انھوں نے گذشتہ دس بارہ برسوں میں پاکستانی سپورٹس کی سب سے نمایاں شخصیت کا کردار خوب نبھایا۔

80 اور 90 کی دہائیوں میں عمران خان، ظہیر عباس، جاوید میانداد، وسیم اکرم، وقار یونس کے ساتھ ساتھ ہاکی کے سمیع اللہ، کلیم اللہ، حسن سردار، صلاح الدین، وغیرہ اور سکوائش کے کھلاڑی جہانگیر خان اور جان شیر خان بھی قوم کے ہیروز میں شمار کیے جاتے تھے مگر نئے ہزاریے کچھ ایسا قحط الرجال آیا کہ ان مشاہیر کے منظرعام سے ہٹنے کے بعد خلا پیدا ہوا جسے جیسا تیسا بھی ہو، صرف بوم بوم آفریدی ہی پورا کر سکے۔

اس دوران انھوں نے نہ صرف مقبولیت کے پائیدان پر پہلی پوزیشن حاصل کی بلکہ اپنے نام کو بھی ایک برینڈ میں تبدیل کر ڈالااس طرح وہ کھلاڑی سے کہیں زیادہ ایک برینڈ یا مقبول ہیرو کے روپ میں زیادہ دکھائی دئیے۔ اس دوران کوئی اور کھلاڑی اشتہاروں میں اتنا نظر نہیں آیا جتنا آفریدی۔ خیبرپختونخوا میں ایم ایم اے کی حکومت کے دور میں خواتین کے اشتہاری بورڈوں پر کالک ملی گئی تو لالا اپنی سٹائلش داڑھی کے ساتھ جگہ جگہ شیمپو سے لے کر سافٹ ڈرنکس کے اشتہاروں میں نظر آنے لگے تاہم بدقسمتی سے وہ اپنی اس ’لارجر دین لائف پرسنالٹی کو کھیل کے میدان میں نبھانے میں پوری طرح سے کامیاب نہیں ہو سکے۔

اس لیے بوم بوم کو ہم ایک بڑا سپرسٹار یا انتہائی مقبول شخصیت تو قرار دے سکتے ہیں لیکن بڑا کھلاڑی نہیں کہہ سکتے۔

متعلقہ عنوان :