قرآن کی بے حرمتی کی مشتبہ ملزمہ بے گناہ تھی بے حرمتی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔افغان تحقیقاتی افسر

پیر 23 مارچ 2015 12:09

قرآن کی بے حرمتی کی مشتبہ ملزمہ بے گناہ تھی بے حرمتی کا کوئی ثبوت نہیں ..

کابل( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔23مارچ۔2015ء ) قرآن کی بے حرمتی کے بظاہر جھوٹے الزام میں ہجوم کے ہاتھوں کابل میں ماری جانے والی خاتون کے جنازہ افغان اور اسلامی روایات کے برعکس عورتوں نے اٹھایا۔فرخندہ نامی اس خاتون کے جنازے میں سینکڑوں لوگوں نے شرکت کی اور ان کے قاتلوں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔افغان حکومت کے ایک اعلیٰ تحقیقاتی افسر کا کہنا تھا کہ گذشتہ ہفتے قرآن کی بے حرمتی کے الزام میں ایک مشتعل ہجوم کے تشدد سے ہلاک ہونے والی افغان خاتون بے گناہ تھی۔

افغانستان میں فوجداری مقدمات کے اعلیٰ ترین تفتیش کار جنرل محمد ظاہر نے کہا ہے کہ انہوں نے واقعے سے متعلق تمام دستاویزات اور شواہد کا جائزہ لیا ہے اور انہیں مقتولہ کی جانب سے قرآن پاک کی بے حرمتی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

(جاری ہے)

جمعرات کو دارالحکومت کابل کے مرکزی علاقے میں پیش آنیو الے اس دردناک واقعے میں مشتعل مردوں کے ایک ہجوم نے فرخندہ نامی 27 سالہ خاتون کو لاٹھیوں سے پیٹنے کے بعد زندہ جلا دیا تھا۔

مقتولہ پر الزام تھا کہ اس نے مبینہ طور پر قرآن پاک کے ایک نسخے کو نذرِ آتش کیا تھا۔ کئی عینی شاہدین نے اپنے موبائل فون کے ذریعے اس واقعے کی ویڈیو بنا کر انٹرنیٹ پر پوسٹ کی تھیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جائے واقعہ پر موجود پولیس اہلکاروں نے بھی خاتون کو مشتعل ہجوم سے بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔اتوار کو مقتولہ کے جنازے کے دوران صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے جنرل ظاہر نے کہا کہ وہ اس اندوہناک واقعے میں ملوث تمام افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ جائے واقعہ پر موجود آٹھ پولیس اہلکاروں سمیت 13 ملزمان کو پہلے ہی حراست میں لیا جا چکا ہے۔کابل میں ہونے والے جنازے میں سیکڑوں افراد نے شرکت کی جو انصاف کے حصول کے لیے نعرے بازی کر رہے تھے۔ مقتولہ کا جنازہ افغان روایات کے برعکس خواتین نے اٹھا رکھا تھا جسے میڈیا نے خصوصی کوریج دی۔مقتولہ کے بھائی نے ذرائع ابلاغ میں آنے والی ان اطلاعات کی تردید کی ہے کہ ان کی بہن کا ذہنی توازن درست نہیں تھا۔

جنازے کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مقتولہ کے بھائی نے بتایا کہ فرخندہ ایک مقامی اسکول میں اسلامیات کی استانی تھی جسے مشتعل ہجوم کے غیض و غضب سے بچانے کے لیے ان کے والد نے ذہنی بیمار قرار دیا تھا۔انہوں نے بتایا کہ فرخندہ پر الزام لگنے کے بعد ان کے اہلِ خانہ نے پولیس سے تحفظ طلب کیا تھا لیکن پولیس حکام نے انہیں سکیورٹی دینے کے بجائے اپنی حفاظت کے لیے شہر چھوڑنے کا مشورہ دیا تھا۔ہجوم کے ہاتھوں خاتون کے قتل کے اس واقعے کی افغان صدر اشرف غنی اور اعلیٰ حکومتی عہدیداران نے بھی سخت مذمت کی ہے اور واقعے میں ملوث افراد کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا وعدہ کیا ہے۔