نوجوانوں کی پرتعیش زندگی لیکن کرنے کو کچھ نہیں

منگل 7 اپریل 2015 17:50

نوجوانوں کی پرتعیش زندگی لیکن کرنے کو کچھ نہیں

متحدہ عرب امارات (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔7اپریل2015ء)متحدہ عرب امارات کے نوجوانوں کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ مراعات یافتہ طبقات میں ہوتا ہے۔ پیدائش کے لے کر موت تک انھیں اعلیٰ تعلیم، بہترین صحت کی سہولیات اور معقول معاوضوں کی حامل ملازمتوں تک رسائی حاصل ہے۔ تاہم صحافی بل لا کی رپورٹ کے مطابق ہر کوئی یہ نہیں سمجھتا کہ وہ بامعنی زندگی گزار رہا ہے۔

سعاد الحوسنی ایک 26 سالہ بے قرار بزنس خاتون ہیں۔ وہ تیل کے ذخائر سے مالا مال اس خلیجی ریاست کی اس نسل سے ہیں جو اپنے پاؤں پر خود کھڑا ہونا چاہتی ہے۔ وہ کہتی ہیں: ’ہم غیرملکی کمپنیوں کے لیے الف سے ے تک سب کچھ کرتے ہیں۔ ہفتے کے سات دن اور دن کے 24 گھنٹے، میں کبھی نہیں رکتی۔‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ کبھی کبھار دن میں مختصر چھٹی کرنے کے علاوہ جب سے انھوں نے پانچ سال سے اپنی دکان کھولی ہے، کبھی چھٹی نہیں لی۔

(جاری ہے)

ان کی کمپنی، نیکسس بزنس سروسز، معاشی مشاورت، سرکاری اور نجی سیکٹروں میں روابط اور متحدہ عرب امارات میں بزنس کرنے کے حوالے سے ثقافتی اور معاشرتی تناظر میں ہدایات فراہم کرتی ہے۔ وہ اس دقیانوسی تصورات کو رد کرتی ہیں کہ خطے کے لوگ امیر، بور اور کام سے دل چرانے والے ہیں، اور اس میں وہ تنہا نہیں ہیں۔ دبئی میں مقیم ایک تجزیہ کار اور پالیسی کنسلٹنٹ محمد بہارون بتاتے ہیں کہ جن نوجوانوں کو وہ آج کل ملازمت پر رکھ رہے ہیں وہ پہلے سے کہیں زیادہ متحرک ہیں۔

وہ کہتے ہیں: ’وہ زیادہ متحرک ہیں، زیادہ کام سے جڑے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی کرسی پر بیٹھے رہنا نہیں چاہتے۔ وہ منصوبوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔‘ لیکن یہ نوجوان خواتین ہیں جو نمایاں ہیں۔ ہائی سکول سے گریجویشن کرنے والی تقریباً 95 فی صد خواتین یونیورسٹی میں داخلہ لیتی ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں مردوں کی تعداد صرف تین چوتھائی ہے۔ محمد بہارون جو نوجوان گریجویٹوں کو بطور محقق ملازمت پر رکھتے ہیں، بتاتے ہیں کہ خواتین ’سخت محنتی اور لڑکوں کے مقابلے میں اچھے گریڈوں کی حامل ہوتی ہیں۔

‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ مردوں میں یہ رجحان کیوں نہیں پایا جاتا تو انھوں نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ ’وہ لڑکوں کے طرح شکار کھیلنے، کیمپنگ کرنے اور مچھلیاں پکڑنے نہیں جاتیں۔‘ نہ ہی خواتین ہفتے میں چھٹی کے دن صحرا میں گاڑیوں کی ریس یا کافی شاپس پر جاتی ہیں، جس سے بوریت اور عدم تحرک ظاہر ہوتا ہے۔ بوریت سے قطع نظر نوجوان امارتی ایک اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔

وہ اپنی حکومت پر بھروسہ کرتے ہیں اور مغربی میڈیا میں تسلسل کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے پریشان دکھائی نہیں دیتے، جو عام طور پر امارتی پریس میں بالکل نظر انداز کر دی جاتی ہیں۔ محمد بہارون کہتے ہیں: ’وہ ان خبروں کو آٹے میں نمک کے برابر سمجھتے ہیں یا وہ مختلف ہیں۔ وہ انھیں حقیقی الزامات کے طور پر نہیں دیکھتے۔‘ سعاد الحوسنی سے جب پوچھا گیا کہ کیا انھیں کسی تکلیف کا سامنا ہے تو کچھ توقف کے بعد انھوں نے کہا: ’زندگی میں کچھ بھی کامل نہیں ہوتا، کچھ بھی مکمل نہیں ہوتا، لیکن ہمارے پاس بہترین ذرائع اور حیرت انگیز قیادت ہے۔

ہماری زندگی خوشحال ہے۔‘ صحافی عباس اللواتی عمان سے تعلق رکھنے والے ایک تارک وطن ہیں۔ ان کا مشاہدہ ہے کہ اماراتی نوجوانوں میں ایک دولت مند اقلیت اور ریاستی بالادستی کی حامل معاشرے سے تعلق رکھنے کی بنا پر حقداری کا احساس بھی پایا جاتا ہے۔ بہت سارے اماراتی پھیلے ہوئے سرکاری سیکٹر میں کام کرتے ہیں جہاں ایک عام سی سیکریٹری سطح کی ملازمت 15,000 درہم ماہانہ تنخواہ ملتی ہے اور عام طور پر تنخواہیں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔

تنخواہوں میں اضافہ آخری بار سنہ 2013 میں ہوا تھا جب سرکاری تنخواہوں میں 30 سے 100 فیصد اضافہ کیا گیا تھا۔ عباس اللواتی کہتے ہیں: ’شہریوں میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ انھیں نوکری سے نکالا نہیں جا سکتا، چاہے وہ نجی سیکٹر ہو یا سرکاری۔ ایسا ہی سمجھا جاتا ہے کہ آپ کسی اماراتی کو نوکری سے نہیں نکال سکتے۔‘ عباس اللواتی کے خیال میں اماراتی شہریوں کے لیے نجی سیکٹروں میں ملازمت کے حکومتی کوٹے کے باعث کمپنیاں حکومتی اصول کی پاسداری کے لیے نوجونوں کو معمولی ملازمتوں پر رکھ رہی ہیں۔

بیکار سی سرکاری یا نجی سیکٹر میں ملازمت، جہاں مالک کہتا ہے کہ ’یہ رہا آپ کا ڈیسک، جو آپ کرنا چاہتے ہو کرو‘ ان نوجوانوں کو تذبذب کا شکار کر دیتا ہے جو واقعی کام کرنا چاہتے ہیں۔ معقول انتظامات کے باوجود نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح بلند ہے۔ گذشتہ کئی دہائیوں سے گلف کوآپریشن کونسل کے دیگر ممالک کی طرح متحدہ عرب امارات نے کم تنخواہوں پر تارک وطن پیشہ ور ملازمین کو بدو قبائلی معاشروں کو مستقبل کے بڑے شہروں میں تبدیل کرنے لے لیے حوصلہ افزائی کی ہے۔

جس کے نتیجے میں 93 لاکھ آبادی کے حامل ملک کا ہر چھٹا شہری اماراتی ہے۔ کچھ لوگ اس قدر تیزی سے تبدیل ہونے والے معاشرے سے بھی بیزار ہیں اور نوجوانوں میں بیشتر بے روزگار ہیں۔ یونیورسٹی آف لندن کے سکول آف اورینٹل اینڈ افریکن سٹڈیز کے شعبہ لنڈن مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر حسن حکیمین کہتے ہیں کہ نوجوان اماراتیوں کو ’اپنے ملک میں کھو جانے‘ کا خطرہ ہے۔

گلف کوآپریشن کونسل میں نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح دنیا میں بلند ترین ہے۔ حسن حکیمین کہتے ہیں کہ متحدہ عرب امارات میں 15 سے 24 سال کی عمر لڑکوں میں ہر پانچ میں سے ایک بے روزگار ہے اور نصف سے زیادہ نوجوان خواتین بے روزگار ہیں۔ مجموعی طور پر نوجوان اماراتیوں میں بے روزگاری کی شرح 28 فیصد ہے۔ تاہم یہ اعداد و شمار ان افراد سے متعلق ہیں جو ملازمت کی تلاش میں ہیں۔

جنھوں نے ملازمت کی تلاش چھوڑ دی ہے یا کبھی اس بارے میں سوچا بھی نہیں ہے ان کے اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ حسن حکیمین کہتے ہیں کہ نوجوانوں کے کام کرنے کی حوصلہ افزائی اور تارک وطن پر کم سے کم انحصار کرنے کے حکومتی پروگرام اور پالیسیاں محدود پیمانے کی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’درحقیقت حکومت وہی پرانا راستہ اختیار کر رہی ہے۔‘ عباس اللواتی کہتے ہیں کہ ‘اماراتی ایک سکڑتی ہوئی اقلیت ہیں۔

‘ قومی شناخت ختم ہو رہی ہے اور نوجوان اپنی قومیت کا پھر سے یقین دلا رہے ہیں۔ عباس اللواتی کہتے ہیں: ’وہ اس کا کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں، اپنے کپڑوں کے ساتھ۔‘ دوسری جانب امارتی شہری سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کرتے ہیں، اور مغربی موسیقی، فلمیں اور دیگر ثقافتی اثرو رسوخ قبول کرنے کے ساتھ ساتھ مرد اپنا روایتی توپ، لمبا چغہ اور خواتین عبایا پہنتی ہیں۔

مسز الحوسنی کہتی ہیں: ’آپ کو اپنی حد کا معلوم ہونا چاہیے۔ میں نے سوٹوں سے آغاز کیا اور پھر دوبارہ عبایا استعمال کرنا شروع کر دیا۔‘ حکومت کی جانب سے قومی شناخت کا احساس پیدا کرنے اور نوجوانوں کو بگڑنے کے بچانے کے غرض سے مردوں کے لیے لازمی فوجی تربیت متعارف کروائی ہے۔ سیکنڈری سکول کی تعلیم مکمل کرنے والوں کے لیے نو ماہ اور جنھوں نے سیکنڈری تعلیم مکمل نہیں کی ان کے دو سال کے تربیت لازمی ہو گی۔

محمد بہارون کے مطابق: ’یہ لوگوں کو ادنیٰ ملازمتیں جیسا کہ ٹوائلٹوں کی صفائی، کھانا پکانا اور بستر تیار کرنا وغیرہ کے لیے تیار کرنا ہے، وہ کام جو عام طور پر گھریلو ملازم کرتے ہیں۔ یہ ان کی پرتعیش زندگی میں نظم لانے کا ایک طریقہ ہے۔‘ اور اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں امراتی اس عمل سے خوفزدہ ہو جائیں تو حالات اس کے برعکس ہیں۔ سعاد الحوسنی، جو فوجی تربیت سے مستثنیٰ ہیں، کہتی ہیں کہ ’یہ ایک بہتری خیال ہے۔ ہر کوئی کچھ نہ کچھ کر رہا ہے۔ یہ اس ملک کو واپس کچھ دینے کا ایک طریقہ ہے۔‘