حکومت کے پاس بجلی کے بحران پر قابو پانے کیلئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل نہیں ہے ‘ تھنک ٹینک آئی پی آر

حکومت کو وہ غلطیاں ذہن میں رکھنی چاہیئیں جن کی وجہ سے بجلی کا بحران اس سطح تک پہنچا ہے ‘ رپورٹ میں تجویز

منگل 7 اپریل 2015 18:38

لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔07 اپریل۔2015ء) تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز کے زیر اہتمام ملک میں جاری بجلی کے بحران پرایک رپورٹ جاری کی گئی ۔رپورٹ پیش کرتے ہوئے سپیکر نے کہا کہ حکومت کے پاس بجلی کا بحران ختم کرنے کیلئے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں ہے۔ نیز رپورٹ میں تجویز پیش کی گئی کہ حکومت کو وہ غلطیاں ذہن میں رکھنی چاہیئیں جن کی وجہ سے بجلی کا بحران اس سطح تک پہنچا ہے ۔

آئی پی آر کی رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ پالیسی اور گورننس میں فاصلہ نیزاس سلسلے میں فیصلے کرنے والے جو اس بحران کے پیچھے ہیں سب کچھ جانتے ہیں لیکن وہ اس بحران پر قابو پانے کی سکت نہیں رکھتے۔ بجلی کی پیدوار بڑھانا ان کی ترجیحات میں شامل ہے لیکن اس سلسلے میں ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہے کہ حکومت اس سلسلے میں کہاں کھڑی ہے کیونکہ حکومت ابھی تک کوئلے اور ایل این جی سے بجلی پیدا کر نے کے چکر میں ہے نیز اسی دوران سولر فارمز کی بات بھی ہو تی رہی ہے۔

(جاری ہے)

رپورٹ میں مزید کہاگیا ہے کہ جب تک حکومت ان ایشوز اور بیماریوں پر توجہ نہیں دیتی تب تک بجلی کی پیداوار کو انہیں مسائل کا سامان کرنا پڑے گا جو موجودہ حالات میں بھی ان تمام ایشوزپر سب سے بھاری ہیں نیز جو بجلی کی پیداوار کو متاثر کرتے ہیں یعنی مہنگی بجلی کی ترسیل کے بدلے عدم وصولیاں جس کا مطلب ہے کہ حکومت مہیا کی گئی بجلی کے بدلے ان کے بلوں کی وصولیاں کرنے میں ناکام رہی ہے۔

بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں (ڈسکوز) کی وصولیاں تقریباً30فیصد تک خسارہ میں جا رہی ہیں جس کا مطلب ہے لیکو یڈیٹی میں کمی ،لہذا یہ ممکن نہیں ہے کہ ان عدم وصولیوں کے ہوتے ہوئے بجلی کی پیداوار میں بہتری لائی جا سکے ۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ بجلی کی پیداوار کے لیے درآمد شدہ ایندھن پر انحصار کی وجہ سے بجلی کی پیداواری لاگت زیادہ ہو جاتی ہے۔

1994ء کی پاور پالیسی نے اس سلسلے میں آزادانہ مراعات دیں جبکہ بجلی کی پیداوار کی لیے کسی موثر ایندھن پر توجہ نہ دی گئی لہذابعد میں درآمد شدہ ایندھن کی قیمت میں 20سے 30گنااضافہ ہونے کی وجہ سے بجلی کی پیداواری لاگت میں بھی بہت اضافہ ہو گیا ۔ملک آج بھی اسی طرح کی پالیسیوں کا شکار ہے جس کی وجہ سے بجلی کی قلت ہے اور جو بجلی دستیاب ہے وہ بھی انتہائی مہنگی ہے ۔

ماضی کی پالیسیوں کو جاری رکھا جا رہا ہے جیسا کہ ایل این جی کی ٹیرف پر سمجھوتہ کیا گیا اور اس سلسلے میں مسابقتی طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا جبکہ نیپرا کا بھی بیان ہے کہ انہوں نے ایل این جی کے ٹیر ف کیلئے ان پٹ لاگت کا طریقہ اپنا یا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تمام منصوبہ جات کیلئے شفافیت ایک ضروری عنصر ہے ۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکومت کے زیر انتظام بجلی پیدا کرنے والی اور تقسیم کار کمپنیوں کی کار کردگی انتہائی مایوس کن ہے لہذا اس کیلئے ضروری ہے کہ ان کے مینجمنٹ سٹرکچر میں بہتری لائی جائے ۔

اگرچہ حکومت یہ کہتی ہے کہ پاور سیکٹر ان کی ترجیحی ہے جبکہ گردشی قرضے بجلی کی پیداوار اور ترسیل میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں اور حکومت کے پاس ان گردشی قرضوں سے جان چھڑانے کیلئے کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی نہیں ہے ۔رپورٹ کے آخر میں آئی پی آر نے ملک میں بجلی کے پیداواری منصوبوں کیلئے شفارشات پیش کی ہیں کہ حکومت کس طرح فوری طور پر بجلی کی پیداوار اور سپلائی میں اضافہ کر سکتی ہے ۔ان شفارشات میں گردشی قرضوں کا فوری حل،پاور سیکٹر کیلئے گیس کے کوٹہ میں اضافہ ،ٹیرف اور سبسڈی پالیسی کی ریفارمز او ر پبلک فنڈز کو سڑکوں کی تعمیر کی بجائے پانی اور تھرمل طریقے سے بجلی کی پیداوار پر لگانا شامل ہیں ۔

متعلقہ عنوان :