’مجھے تو ابھی ایورسٹ سر کرنی ہے‘، حسن جان نے اپنا عزم ظاہر کردیا

جمعرات 16 اپریل 2015 13:50

’مجھے تو ابھی ایورسٹ سر کرنی ہے‘، حسن جان نے اپنا عزم ظاہر کردیا

گلگت(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 16اپریل۔2015ء)حسن جان کو انگلیاں کھونے کا بھی صدمہ نہیں بلکہ کہتے ہیں کہ اسی حادثے کی وجہ سے وہ اب کوہ پیمائی کے استاد بنے ہیں’میں اپنی غیر ملکی ٹیم سے دو گھنٹے قبل ہی کے ٹو کی چوٹی پر پہنچا۔ پھر چونکہ میں اس مہم کا ملازم تھا تو میں نے سوچا کہ ان کے پہنچنے کا انتظار کروں واپس نہ جاوٴں۔ بس اسی دوران تھکن کی وجہ سے پانچ منٹ کے لیے دائیں ہاتھ کا دستانہ اتارا۔

اسی سے فراسٹ بائٹ ہوا اور سرجری کر کے دو انگلیاں کاٹنی پڑیں۔‘یہ کہانی ہے پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے باہمت کوہ پیما حسن جان کی جو اب نہیں چاہتے کہ ان کے بچے بھی اس پیشے کی جانب آئیں۔شمالی علاقہ جات کو جہاں قدرت نے دنیا کی بلند ترین چوٹیاں دی ہیں وہیں ان کی بدولت یہاں دنیا کے کئی بہترین کوہ پیما بھی پیدا ہوئے ہیں۔

(جاری ہے)

ان میں سے ایک حسن جان ہیں جو یہاں پائی جانے والی آٹھ ہزار میٹر سے بلند پانچ چوٹیاں جن میں کے ٹو بھی شامل ہے، سر کر چکے ہیں۔

ان کے ساتھی کہتے ہیں کہ وہ یہی چوٹیاں سر کرنے کا دوسرا راونڈ بھی تقریبا مکمل کرچکے ہیں۔ ’بس کے ٹو دوسرا مرتبہ نہیں سر کرسکے لہذا اسے پونے دو مرتبہ سر کر چکے ہیں۔ اپنے ایک انٹرویو میں حسن کا کہنا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ ان کے بچے اس پیشے میں نہ آئیں۔’یہ سخت کام ہے۔ اگر پڑھائی چھوڑ دی اور لاوارث ہوگئے تو پھر اس جانب آنا چاہیے ورنہ کچھ اور ہی بہتر ہے۔

غریب آدمی کے لیے نوکری مشکل سے ملتی ہے ان کے لیے یہ پھر ٹھیک ہے۔‘ سپین، جاپان اور یورپ کے بڑے بڑے کوہ پیماوٴں کے ساتھ یہ مشکل کوہ پیمائی کی ہے۔ بہت کچھ سیکھا۔ وہ زندگی کا جس طرح تحفظ کرتے ہیں اور خیال رکھتے ہیں اس کی مثال نہیں۔حسن جان کے مطابق ’نہ تو حکومت، نہ کسی اور نے تعریف تک نہیں کی۔ میں نے اس ملک کی خاطر اپنے مویشی فروخت کر کے گیشابروم ٹو میں صفائی کی۔

وہاں برف کچرے سے اتنی گندی ہو چکی تھی کہ پانی بنا کر پیا نہیں جا سکتا تھا لیکن کسی نے شاباش نہیں دی۔ اب نہ بچوں کا اس جانب شوق ہے اور نہ میں نے توجہ دی ہے۔‘حسن جان کو انگلیاں کھونے کا بھی صدمہ نہیں بلکہ کہتے ہیں کہ اسی حادثے کی وجہ سے وہ اب کوہ پیمائی کے استاد بنے ہیں اور دوسروں کو محفوظ طریقے سے کوہ پیمائی سکھاتے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ ’پہلے ہم 16 افراد کی تربیت ہوئی اور اب ہم نے ہزاروں کی تربیت کی ہے۔

‘حسن جان کو فخر ہے کہ اس نے دنیا کے بہترین کوہ پیماوٴں کے ساتھ کام کیا اور تجربہ حاصل کیا۔ ’سپین، جاپان اور یورپ کے بڑے بڑے کوہ پیماوٴں کے ساتھ یہ مشکل کوہ پیمائی کی ہے۔ بہت کچھ سیکھا۔ وہ زندگی کا جس طرح تحفظ کرتے ہیں اور خیال رکھتے ہیں اس کی مثال نہیں۔‘حسن جان جیسے گانچھے کے گاوٴں ہوشے کے اکثر لوگ کوہ پیماوٴں کی مہم میں بطور پورٹر کے کام کرتے ہیں۔

سال میں ان کے دو ماہ ہی لگتے ہیں اور پھر سارا سال ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ باقی وقت وہ کھیتی باڑی سے کچھ گزارا کر لیتے ہیں۔پوچھا کہ کہیں اس نامیدی کی وجہ سے کوہ پیمائی مستقبل میں چھوڑنے کا ارادہ تو نہیں تو ان کا بااعتماد انداز میں کہنا تھا کہ ’نہیں مجھے ابھی ایورسٹ سر کرنی ہے۔‘