اسلام آباد ہائی کورٹ نے شفقت حسین عمر تعین کیس میں فیصلہ محفوظ کرلیا

آرٹیکل پینتالیس کے تحت آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ موت کی سزا غلط ہے‘ جسٹس نور الحق قریشی کے ریمارکس

بدھ 20 مئی 2015 22:05

اسلام آباد ہائی کورٹ نے شفقت حسین عمر تعین کیس میں فیصلہ محفوظ کرلیا

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 20مئی۔2015ء ) اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ نے عمر کے تعین کے لئے جوڈیشل کمیشن کے قیام کی درخواست مسترد کرنے کے خلاف سنٹرل جیل کراچی میں سزائے موت کے قیدی کی انٹرا کورٹ اپیل کے قابل سماعت ہونے کے حوالے سے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ قتل کیس میں سزائے موت یافتہ شفقت حسین کی جانب سے دائر اپیل کی سماعت بدھ کو عدالت عالیہ کے جسٹس نور الحق این قریشی اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر مشتمل ڈویژن بنچ نے کی۔

سماعت کے موقع پر شفقت حسین کے وکیل ڈاکٹر طارق نے درخواست کے قابل سماعت ہونے کے حوالے سے دلائل پیش کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ وزارت داخلہ کے کہنے پر ایف آئی اے نے جرم کے وقت میرے موکل کی عمر کے تعین کے لئے جو انکوائری کی ہے اس کے خلاف درخواست دائر کی تھی جو مسترد کر دی گئی۔

(جاری ہے)

اس پر عدالت نے کہا کہ انکوائری میں تو عمر کا پتہ چل گیا پھر آپ نے انکوائری کو کیوں چیلنج کیا ہے ، اپیل صرف ٹرائل کے دوران کی جا سکتی ہے۔

اس پر شفقت حسین کے وکیل نے کہا کہ ہم نے صدر پاکستان کے پاس رحم کی اپیل دائر کر رکھی ہے ، یہ انکوائری جوڈیشل فورم سے ہونی چاہئے تھی۔ عدالت نے ان سے استفسار کیا کہ صدر پاکستان آپ کی عمر کی تصدیق کیسے کریں گے تو انہوں نے استدعا کی کہ اس مقصد کے لئے جوڈیشل کمیشن بنانے کا حکم جاری کر دیا جائے۔ ڈاکٹر طارق ایڈووکیٹ نے کہا کہ شفقت حسین کی پیدائش کا سرٹیفکیٹ منسوخ کر دیا گیا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ کس نے کیا ہے۔

اس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دئیے کہ اگر انکوائری کی رپورٹ آپ کے حق میں آئی ہوتی تو ہمارا پورا جوڈیشل سسٹم زمیں بوس ہو جاتا اور آپ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا نہ کہتے۔ جسٹس نور الحق این قریشی نے کہا کہ کیا رحم کی اپیل میں حقائق کو چیلنج کیا جا سکتا ہے؟ سپریم کورٹ نے کہا کہ عمر کی تصدیق صرف کسی عدالتی فورم پر ہو سکتی ہے جبکہ آپ اس کے لئے صدر پاکستان کے پاس چلے گئے ہیں۔ بعد ازاں فاضل عدالت نے انٹرا کورٹ اپیل کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے فیصلہ محفوظ کر لیا۔واضح رہے کہ شفقت حسین نے سات سالہ بچے کو اغواء کے بعد تاوان نہ ملنے پر قتل کر دیا تھا جس پر اسے سزائے موت سنائی گئی تھی جو سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھی۔

متعلقہ عنوان :