کراچی میں بھتہ خوری ،سمگلنگ و دیگر ذرائع سے تقریباً 230بلین روپے جمع کئے جاتے ہیں ،ڈی جی رینجرز سندھ

جرائم کی بیشتر وارداتوں ،زمینوں پر غیر قانونی قبضوں ،بھتہ وصولی میں کراچی کی بڑی سیاسی جماعت ملوث ہے،میجر جنرل بلال اکبر کراچی فش ہاربر سے غیر قانونی طریقے سے حاصل کی گئی رقم گینگ وار ،مختلف دھڑوں اور سندھ کی کچھ بااثر اور اعلیٰ شخصیات میں تقسیم کی جاتی ہیں قبضہ مافیا میں سیاسی جماعتیں ،کے ایم سی،ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشنز ،تعمیراتی کمپنیاں ،اسٹیٹ ایجنٹ اور پولیس اہلکار شامل ہیں

جمعرات 11 جون 2015 21:07

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 11 جون۔2015ء) ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر نے اپیکس کمیٹی کو دی جانے والی بریفنگ میں انکشاف کیا ہے کہ کراچی میں بھتہ خوری ،اسمگلنگ اور دیگر ذرائع سے تقریباً 230بلین روپے جمع کیے جاتے ہیں جو دہشت گردی کے نیٹ ورک اور عسکری ونگز کو منظم کرنے میں استعمال ہورہے ہیں ۔ جرائم کی بیشتر وارداتوں ،زمینوں پر غیر قانونی قبضوں اور بھتہ وصولی میں کراچی کی ایک بڑی سیاسی جماعت ملوث ہے ۔

سندھ رینجرز کے جاری کردہ بیان کے مطابق اس بریفنگ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دہشت گرد گروہ،ٹارگٹ کلرز اور دیگر جرائم کی فنڈنگ ایک مربوط نظام کے ذریعہ کی جاتی ہے ۔کراچی فش ہاربر سے غیر قانونی طریقے سے حاصل کی گئی رقم گینگ وار ،مختلف دھڑوں اور سندھ کی کچھ بااثر اور اعلیٰ شخصیات میں تقسیم کی جاتی ہیں ۔

(جاری ہے)

اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کروڑوں روپے ماہانہ مختلف گینگ وار دھڑوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں جو کہ اسلحہ کی خریداری اور مسلح جھتوں کو پالنے میں استعمال ہوتے ہیں ۔

بریفنگ میں بتایاگیا کہ زکوۃ اور فطرے کے نام پر بھی جبری رقم وصول کی جاتی ہے جس کی آمدنی کروڑوں میں ہے ۔قربانی کے جانوروں کی کھالوں سے حاصل شدہ رقم بھی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا ایک بڑا حصہ ہے جو کہ سیاسی جماعتوں اور مذہبی تنظیموں کے عسکری گروپس کو چلانے میں استعمال ہوتا ہے ۔جبکہ چھوٹی مارکیٹوں ،پتھارے داروں ،بچت بازاروں ،قبرستان ،اسکولوں اور کینٹینوں سے حاصل شدہ بھتے کی رقم بھی کروڑوں میں ہے ۔

لینڈ گریبنگ اور چائنہ کٹنگ کراچی میں جرائم کے پس منظر میں ایک جہت ہے ۔لینڈ گریبنگ اور چائنہ کٹنگ کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ان میں سرکاری اراضی پر تعمیرات ،سرکاری اراضی پر قبضہ اور پرائیویٹ پراپرٹی پر قبضہ شامل ہے ۔اس قبضہ مافیا میں سیاسی جماعتیں ،سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ (کے ایم سی)،ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشنز ،تعمیراتی کمپنیاں ،اسٹیٹ ایجنٹ اور پولیس اہلکار شامل ہیں ۔

یہ تمام افراد ایک مربوط نظام کے تحت کام کرتے ہیں ۔ان میں سے بیشتر کی سرپرستی کراچی کی ایک بڑی سیاسی جماعت کرتی ہے ۔جبکہ دیگر سیاسی رہنما اور بلڈرز بھی اس مکروہ دھندے میں شامل ہیں ۔ایرانی ڈیزل کی اسمگلنگ سے حاصل شدہ رقم بھی جرائم اور دہشت گردی کی فنڈنگ کا ایک اہم ذریعہ ہے ۔یہ رقم سندھ کی سیاسی گروہوں ،وڈیروں کے پرائیویٹ لشکروں کو پالنے اور دیگر جرائم میں استعمال ہوتی ہے ۔

اس غیر قانونی کاروبار میں سندھ کے بااثر افراد ملوث ہیں ۔بااثر افراد کو اسمگلنگ سے حاصل شدہ رقم کا حصہ باقاعدگی سے پہنچایا جاتا ہے ۔دیگر غیر قانونی کاروبار میں ایک بڑا حصہ پانی کی غیر قانونی ترسیل ہے جس سے حاصل شدہ رقم بھی کروڑوں روپے سالانہ ہے ۔گزشتہ ادوار میں مختلف حکومتوں نے گھوسٹ ملازمین کی بھرتی کا نظام وضع کیا جس سے ماہانہ کروڑوں روپے کی رقم مستقل بنیادوں پر وصول کی جاتی ہے ۔

یہ بلیک منی دیگر جرائم کے فروغ اور دہشت گردی میں استعمال ہوتی ہے ۔جرائم کی فنڈنگ میں غیر قانونی شادی ہال ،غیر قانونی پارکنگ ،سیاسی سرپرستی میں منشیات کا کاروبار ،میچ فکسنگ ،منی لانڈرنگ ،سائبر کرائم اور مدارس کی بیرونی فنڈنگ بھی دہشت گردی کے اسٹرکچر کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کررہی ہے ۔ایک تخمینے کے مطابق 230بلین سالانہ سے زائد کی رقم مختلف غیر قانونی ہتکھنڈوں کے ذریعہ وصول کی جاتی ہے جو کہ نہ صرف قومی خزانے کا نقصان ہے بلکہ شہریوں کو اذیت میں مبتلا کیا گیا ہے جہاں دہشت گردی ،ٹارگٹ کلنگ اور دیگر جرائم میں ملوث افراد کے خلاف رینجرز کا بھرپور آپریشن جاری ہے وہیں اس ٹیرف فنڈنگ نیٹ ورک کا قلع قمعہ بھی فوری طور پر ضروری ہے تاکہ ہم شہر اور ملک میں ایک پائیدار امن کی بنیاد رکھ سکیں ۔

اپیکس کمیٹی نے رینجرز کی تجاویز کو سراہا اور اس مفصل رپورٹ پر ایک کمیٹی کے قیام کا فیصلہ کیا ہے جو جلد اپنا کام شروع کریگی ۔

متعلقہ عنوان :