اظہار رائے کی آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کو بھی لائسنس دیدیا جائے ‘چیئر مین سینٹ

جمعہ 12 جون 2015 16:00

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 12 جون۔2015ء) چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہاہے کہ اظہار رائے کی آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کو بھی لائسنس دیدیا جائے، گزشتہ دنوں سے آج تک آئین ، پارلیمان اور جمہوری نظام کو ٹارگٹ بنایا جارہاہے ‘ پارلیمان اس معاملے کو سنجیدہ نہیں لے رہی ‘ اس شخص کا بیان جمہوری عمل کو ایک بار پھر ڈی ریل کرنے کی دعوت ہے، یہ صریحا آئین کی خلاف ورزی ہے جبکہ اراکین سینیٹ نے جنرل ریٹائرڈ حمید گل کے بیان پر ان کیخلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے اور بعض اراکین نے موقف اختیار کیا کہ ان کے بیان کو اتنی اہمیت نہ دی جائے ۔

جمعہ کو سینیٹ کے اجلاس میں سینیٹر عثمان اللہ کاکڑ نے کہا کہ جنرل ریٹائرڈ حمید گل کا انٹرویو شائع ہواہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ’آئین کو منسوخ کر کے فوج اقتدار سنبھال لے، قرارداد مقاصد کے ہوتے ہوئے سیاسی جماعتوں کی ضرورت نہیں ہے‘۔

(جاری ہے)

سینیٹر عثمان اللہ کاکڑ نے کہا کہ جنرل حمید گل کا ماضی اس ملک کے سب جرنیل اور عوام کو معلوم ہے ، حمید گل دہشت گردی کے حوالے سے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں، بنیادی طور پر وہ دہشت گردوں کے سرپرست ہیں، افسوس ہے کہ ایک طرف ضرب عضب چل رہا ہے، دوسری طرف نیشنل ایکشن پلان موجود ہے، اس کے باوجود یہ شخص کسی زد میں نہیں آرہا۔

اس کو نہ ہی کسی عدالت نے طلب کیا اور نہ ہی اس کا بیان آئین اور قانون کی پامالی کے زمرے میں آیا۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ متفقہ طور پر مطالبہ کرے کہ حمید گل کیخلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ درج کیا جائے، میڈیا بھی اس کو پرموٹ کررہا ہے ،خاص حالات میں اس شخص کو سامنے لاتا ہے، اس موقع پر چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ اس شخص کو قرارداد کے ذریعے اہمیت نہیں دینی چاہئے۔

ایوان اس بات کا خود نوٹس ضرور لے۔ آئین کے تحت اظہار رائے کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کو لائسنس مل جائے، انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں سے آج تک آئین پارلیمنٹ ، جمہوری نظام کو ٹارگٹ بنایا جارہاہے، پارلیمان اس معاملے کو سنجیدہ نہیں لے رہی، اس شخص کا بیان آئین کی صریحا خلاف ورزی ہے ، جمہوری عمل کو ایک دفعہ پھر ڈی ریل کرنے کی دعوت ہے جن کیلئے انہوں نے بیان دیا وہ جمہوریت کو ڈی ریل نہیں کرینگے وہ اپنی ذمہ داریاں سمجھتے ہیں اس پر گفتگو نہیں ہونی چاہئے۔

اس موقع پر سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اس شخص کا نام نہیں لینا چاہئے، گزشتہ دس سال میں یہ کوئی موقع نہیں جانے دیتا کہ اس کو کیسے شہرت ملے۔ جس نے غلاظت کی اس کی مشہوری ہوئی۔ ایوان اس کو اہمیت نہ دے اور نہ ہی اس پر بات کی جائے، سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ اس شخص کی ایک تاریخ ہے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ ملک میں جمہوریت پروان نہ چڑھے جب بھی ملک میں جمہوریت آئی ہے ایسا شخص سامنے آجاتا ہے اب وہ عمر کے اس حصے میں ہیں کہ اس کو اہمیت نہ دی جائے تاہم اس طرح کے بیانات پر حکومت ان کیخلاف کارروائی کرے، جمہوریت کیخلاف اکسانا آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہے، اس نے سستی شہرت اختیارکرنے کیلئے ایسا کیا ، یہ ان کا فرمائشی پروگرام تھا، ایم کیو ایم کے سینیٹر بیرسٹر سیف اللہ نے کہا کہ اس معاملے کو سنجیدہ نہ لیا جائے۔

آئین کیخلاف بات کرنا آرٹیکل 29 کیخلاف بات کرنا ہے جس میں اسلام، آئین ، عدلیہ اور فوج کیخلاف بات نہیں کی جاسکتی، اگر کوئی آئین کیخلاف بات کرتا ہے تو وہ پاکستان کیخلاف بات کرتا ہے لیکن جو اخبارات اور ٹی وی انہیں دکھا رہے ہیں ان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہئے کیا میڈیا کو بھی کسی پابندی کا احترام کرتا چاہئے۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ اس معاملے کو نظر انداز کیا جائے لیکن ہم ایسا نہیں کررہے بلکہ اس پر بات کررہے ہیں، جمہوریت کیخلاف جو فضاء بنائی جارہی ہے، اٹھارویں ترمیم کے بعد وہ ممکن نہیں ہے ۔ یہ ایوان سفارش کرے کہ ایسے لوگوں کیخلاف سخت کارروائی کی جائے۔