آئندہ نسلوں کو ایک خوشحال اور پر امن ملک دینے کے لئے کڑے احتساب کا عمل شروع کرنا ہو گا، اداروں کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے، معاشی اہداف حقیقت پسندانہ ہونے چاہئیں، معاشی شرح نمو کے لئے محصولات کی وصولی میں اضافہ کرنا چاہیے

سینیٹ میں بجٹ پر بحث کے دوران مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان کا اظہار خیال

جمعہ 12 جون 2015 17:21

اسلام آباد ۔ 12 جون ((اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 12 جون۔2015ء) ) سینیٹ میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے کہا ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک غریبوں کی حالت نہیں بدلی، آئندہ نسلوں کو ایک خوشحال اور پر امن ملک دینے کے لئے کڑے احتساب کا عمل شروع کرنا ہو گا، اداروں کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے، معاشی اہداف حقیقت پسندانہ ہونے چاہئیں، معاشی شرح نمو کے لئے محصولات کی وصولی میں اضافہ کرنا چاہیے۔

جمعہ کو آئندہ مالی سال 2016-15ء کے وفاقی بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ حکومت رواں مالی سال کے اقتصادی اہداف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی، اگلے مالی سال کے اہداف بھی غیر حقیقی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو بجلی، گیس اور دہشت گردی جیسے مسائل کا سامنا ہے، اس لئے معاشی اہداف بھی حقیقت پسندانہ ہونے چاہئیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ملک کو مضبوط بنانے کے لئے اداروں کو مستحکم کرنا ہو گا، فوج اس لئے مضبوط ہے کہ اس میں نظم و ضبط ہے، سٹیٹ بینک اور نادرا بھی کسی حد تک ٹھیک ہیں، باقی اداروں کی حالت ہمارے سامنے ہے۔

انہوں نے کہا کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک غریبوں کی حالت نہیں بدلی، آئندہ نسلوں کو ایک خوشحال اور پر امن ملک دینے کے لئے کڑے احتساب کا عمل شروع کرنا چاہیے۔ سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ معیشت کی بنیاد زراعت، مینوفیکچرنگ اور خدمات کے شعبے ہیں، زراعت کا شعبہ زوال پذیر ہے اس کی پیداوار بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے دو عشروں کے درمیان ہمارے قرضوں میں بہت اضافہ ہوا ہے اور رواں اخراجات میں بھی قرضوں کا بہت زیادہ حصہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ جی ڈی پی کے تناسب سے قرضوں کا تناسب 64.6 فیصد تک پہنچ گیا ہے، انسانی وسائل کی ترقی اور سماجی شعبے پر توجہ نہیں دی جا رہی، اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشی شرح نمو کے لئے محصولات کی وصولی بڑھانا ہو گی۔ سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے اپنے دور میں تاریخی اقدامات کئے، اس وقت کے صدر مملکت نے اپنے اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کئے اور خیبرپختونخوا کو نیا نام دیا۔

انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کو یہ طعنہ نہیں دینا چاہیے کہ وہ گلگت بلتستان اور کے پی کے میں ہار گئی، ہم نے وہ وقت بھی دیکھا جب محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں قومی اسمبلی میں پیپلزپارٹی کی 17 نشستیں تھیں لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں نئے ٹیکس اقدامات سے عوام کی مشکلات بڑھیں گی، سندھ میں لیاری ایکسپریس وے کیلئے 10 کروڑ روپے مختص کئے گئے جو بہت کم ہیں، کراچی میں نیوکلیئر پاور پلانٹ کے لئے کوئی رقم نہیں رکھی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ای سی مشترکہ مفادات کونسل، ایف بی آر اور منصوبہ بندی کمیشن سندھ کے افسران کی تعداد نہیں ہے، ہمیں ہمارا حق ملنا چاہیے۔ مولانا عطاء الرحمن اپوزیشن ارکان کو بجٹ کے لئے بہتر تجاویز دینی چاہئیں، تنقید برائے تنقید درست نہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو خراجات کم کرنے کے لئے کفایت شعاری اختیار کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں بھی ترقیاتی فنڈز میں اضافہ کر کے حکومت نے اچھا اقدام کیا ہے، اسے سے بنیادی ڈھانچے کے منصوبے مکمل کرنے میں مدد ملے گی۔

سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ لوگوں کو رہائشی سہولیات فراہم کرنے کے لئے مناسب اقدامات کئے جائیں، ورنہ کچی آبادیاں بنتی رہیں گی، پشاور میں باچا خان ایئرپورٹ کے لئے فنڈز مختص کئے جائیں، بجٹ کسی بھی ملک کے عوام کی حالت بہتر بنانے کا ذریعہ بنتا ہے، عوام کی فلاح و بہبود پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیے اس سے ان کی مشکلات میں کمی آنی چاہیے۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ بجٹ میں عام آدمی کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے کچھ نہیں کیا گیا، تنخواہوں میں بہت کم اضافہ کیا گیا ہے، افراط زر میں کمی بین الاقوامی منڈیوں میں تیل کی قیمت میں کمی کی وجہ سے ہوئی ہے، چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کو متنازعہ نہ بنایا جائے، حکومت نے بجٹ میں مشرقی روٹ کے لئے تو فنڈز مختص کر دیئے ہیں مگر مغربی روٹ کے لئے رقم نہیں رکھی گئی۔

متعلقہ عنوان :