عوام کو حکومت سے بڑی توقعات وابستہ ہیں، زراعت پیشہ طبقہ کے مسائل پر خصوصی توجہ دی جائے

کے۔فور منصوبے کی تکمیل کیلئے فنڈز مختص کئے جائیں، پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کیلئے ترقیاتی بجٹ میں اضافہ کیا جائے، اراکین قومی اسمبلی

جمعہ 12 جون 2015 21:59

اسلام آباد ۔ 12 جون (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 12 جون۔2015ء) مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی اسمبلی نے کہا ہے کہ ملک کے عوام کو حکومت سے بڑی توقعات وابستہ ہیں، زراعت پیشہ طبقے کے مسائل پر خصوصی توجہ دی جائے اور اس کیلئے سبسڈی میں اضافہ کیا جائے، کراچی میں پانی کے کے۔فور منصوبے کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنے کیلئے فنڈز مختص کئے جائیں، پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کیلئے ترقیاتی بجٹ میں اضافہ کیا جائے۔

جمعہ کو پیر محمد اسلم بودلہ نے بجٹ 2015-16ء میں تجویز کردہ اقدامات کو سراہا اور کہا کہ شاہراہوں کی تعمیر اور ریلوے کے دوہرے ٹریک سے ان کے حلقہ کے عوام کو فائدہ پہنچا ہے، حکومت زراعت پیشہ لوگوں کے مسائل پر توجہ دے، لوگوں کی مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے بڑی توقعات وابستہ ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے مطالبہ کیا کہ کاروباری برادری کی طرح زراعت کے شعبہ کیلئے سبسڈی میں اضافہ کیا جائے، گندم کی خریداری میں پاسکو بری طرح ناکام رہی ہے اس کا بھی نوٹس لیا جائے۔

ایم کیو ایم کی رکن قومی اسمبلی ثمن سلطانہ جعفری نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ہم تمام ہمسائیوں سے برابری کی بنیاد پر اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں، کسی کو اپنی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی اجازت نہیں دیں گے، ملکی سالمیت پر ہم سب ایک ہیں، کراچی کو پانی اور بجلی کی ضرورت ہے گرین لائن بس کی نہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حیدر آباد میں یونیورسٹی بنائی جائے، کراچی میں پانی کے مسئلہ کو ختم کرنے کیلئے ملیر ریور ڈیم تعمیر کیا جائے۔

سید عیسیٰ نوری نے کہا کہ بلوچستان کی سرزمین ملک کا 40 فیصد حصہ ہے، ہمیں بھی مساوی ترقی کے مواقع ملنے چاہئیں بصورت دیگر محرومیاں بڑھیں گی، بلوچستان کیلئے ترقیاتی بجٹ میں حصہ صرف 45 ارب مختص کیا گیا ہے، بلوچستان کیلئے وفاقی ملازمتوں میں 5 فیصد کوٹہ ہے، لوگ بلوچستان کے جعلی ڈومیسائل بنا کر ملازمتیں حاصل کر رہے ہیں، اس صورتحال کا نوٹس لیا جائے۔

محبوب عالم نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے بجٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ غریبوں کیلئے بجٹ میں رقم مختص نہیں کی گئی۔ کراچی ملک کو 70 فیصد ریونیو دیتا ہے، اس شہر کو پانی کی قلت کا سامنا ہے، بجٹ میں کے۔فور منصوبے کیلئے خاطر خواہ رقوم مختص نہیں کی گئیں۔ عائشہ سید نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ملک میں اس وقت ڈائریکٹ ٹیکسوں کی شرح 30 فیصد جبکہ ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی شرح 70 فیصد ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں صورتحال اس کے برعکس ہوتی ہے۔ ڈائریکٹ ٹیکسوں کا بوجھ غریب عوام پر نہیں پڑتا، بجٹ میں قابل اصلاح پہلوؤں کی اصلاح کیلئے ہماری تجاویز کو مشورہ سمجھا جائے۔ انہوں نے تعلیم اور صحت کے شعبوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ ساجد نواز نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے بجٹ کو روایتی قرار دیا اور کہا کہ ایسا بجٹ پیش ہونا چاہیے جو عام آدمی کو سمجھ میں آئے۔ بجٹ سازی کو سہل بنایا جائے، سب سے پہلے ہمیں اپنی ترجیحات کا تعین کرنا چاہیے، ملک کو اس وقت توانائی کے بحران کا سامنا ہے، ڈیموں کی تعمیر پر کام کی رفتار تیز کی جائے، واپڈا میں اصلاحات لائی جائیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ زکوٰة فنڈ کا صوبائی کوٹہ بڑھایا جائے۔

متعلقہ عنوان :