پنجاب حکومت نے آئندہ مالی سال 2015-16ء کے لئے 14کھرب 47ارب24کروڑ روپے حجم کا متوازن بجٹ پیش کر دیا

بجٹ میں وفاق کی طرز پر صوبائی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اورریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں ساڑھے 7فیصد اضافے کی تجویز ،نجی شعبہ میں کام کرنے والے محنت کشوں و کارکنوں کی اجرت 12ہزار سے بڑھا کر 13ہزار روپے کرنے کا اعلان بجٹ میں دس نئی سروسز پر جنرل سیلز ٹیکس عائد کر دیا گیا ،شہری علاقوں میں دس لاکھ روپے مالیت کی پراپرٹی پر کیپٹل ویلیو ٹیکس چھوٹ ختم کر دی گئی ،ٹیکس چھپانے اور ٹیکس چوری کرنے والوں کی اطلاع دینے والوں کے لئے انعامی سکیمیں بھی شروع کرنے کی تجویز ،پنجاب میں کلبوں پر عائد ایجوکیشن سیس ختم کر دیا گیا ،صرف16فیصد جی ایس ٹی آن سروسز وصول کیا جائے گا

جمعہ 12 جون 2015 23:05

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 12 جون۔2015ء) پنجاب حکومت نے آئندہ مالی سال 2015-16ء کے لئے 14کھرب 47ارب24کروڑ روپے حجم کا متوازن بجٹ پیش کر دیا ، بجٹ میں وفاق کی طرز پر صوبائی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اورریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں ساڑھے 7فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے ،نجی شعبہ میں کام کرنے والے محنت کشوں و کارکنوں کی اجرت 12ہزار سے بڑھا کر 13ہزار روپے کرنے کا اعلان کیا گیا ہے ، آئندہ مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں رواں مالی سال کے مقابلے میں15.9فیصد اضافہ کرتے ہوئے 400ارب تجویز کیا گیا ہے ، بجٹ میں تعلیم کے شعبے کے لئے 310ارب20کروڑ،صحت کے لئے 166ارب13کروڑ،دیہی عوام کی ترقی اور زراعت کے فروغ کے لئے مجموعی طور پر مختلف شعبوں میں 144ارب39کروڑ،امن و اعامہ کی فراہمی کی غرض سے 109ارب25کروڑ روپے ، محکمہ آبپاشی کے لئے 50ارب83کروڑ روپے جبکہ دیہی علاقوں میں نئی سڑکیں تعمیر کرنے اور پرانی سڑکوں کی مرمت اور توسیع کے لئے 52ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے،حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں چھوٹے کاشتکاروں کو سستے ٹریکٹرز فراہم کرنے کیلئے سبسڈی کی مد میں 5ارب ،جذبہ خیر سگالی کے تحت بلوچستان کی عوام کے لئے 2ارب سے زائد مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے ،بجٹ میں جنوبی پنجاب کے لئے 303ارب 6کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے ،آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کی 317اور سول ججز کی 696آسامیاں پیدا کرنے کی تجویز دی گئی ہیآئندہ مالی سال کے بجٹ میں چھوٹے کاروبار کو سیلز ٹیکس میں ریلیف دینے کے لئے ایک درجن کے قریب سیکٹرز میں مقررہ مدت کے لئے ری ڈیوس ریٹ سکیم رائج کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔

(جاری ہے)

اس سکیم کے اطلاق پر سولہ فیصد کی بجائے دو فیصد سے لے کر دس فیصد تک فلیٹ ریٹ سیلز ٹیکس لاگو ہوگا ،آئندہ مالی سال کے بجٹ میں دس نئی سروسز پر جنرل سیلز ٹیکس عائد کر دیا گیا ،شہری علاقوں میں دس لاکھ روپے مالیت کی پراپرٹی پر کیپٹل ویلیو ٹیکس چھوٹ ختم کر دی گئی ،ٹیکس چھپانے اور ٹیکس چوری کرنے والوں کی اطلاع دینے والوں کے لئے انعامی سکیمیں بھی شروع کرنے کی تجویز دی گئی ہے ،پنجاب میں کلبوں پر عائد ایجوکیشن سیس ختم کر دیا گیا اب کلبوں سے صرف16فیصد جی ایس ٹی آن سروسز وصول کیا جائے گا ۔

پنجاب کی پہلی خاتون وزیر خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے جمعہ کے روز پنجاب اسمبلی میں آئندہ مالی سال 2015-16ء کا بجٹ پیش کیا ۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ پنجاب بھی ایوان میں موجود تھے ۔صوبائی وزیر خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے بجٹ تقریر کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے اﷲ کا شکر دا کرتی ہوں جس نے مجھے اعزاز بخشا ہے کہ میں آج اس معزز ایوان کے سامنے حکومت پنجاب کا بجٹ برائے مالی سال 2015 پیش کر رہی ہوں۔

یہ پاکستان مسلم لیگ (ن ) کی موجود ہ منتخب حکومت کا تیسرا بجٹ ہے اور ہماری حکومت کی ترجیحات اور پالیسیوں میں تسلسل کا آئینہ دار ہے۔ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج ہمیں ان ترجیحات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نوا زشریف کی مدبرانہ قیادت اور رہنمائی حاصل ہے۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ان ترجیحات کا مقصد پنجاب کو ایک ایسا صوبہ بناناہے جہاں ایک عام آدمی کی رسائی صحت اور تعلیم سمیت زندگی کی تمام سہولتوں تک ممکن ہو‘جہاں تعلیم یافتہ اور ہنر مندنوجوانوں کو روز گار کے وسیع تر مواقع میسر آسکیں ‘جہاں صنعت‘زراعت اور گھریلو استعمال کے لئے وافر بجلی دستیاب ہو‘جہاں کی رواں دواں صنعتیں اور سرسبز زراعت ایک خوشحال پاکستان کی ضامن ہو‘جہاں قانون کی حکمرانی اور انصاف کی بالا دستی ہو اور جہاں کے شہری ہر طرح کے تشدد اور دہشت گردی کے خوف سے آزاد ‘پرامن او رمطمئن زندگی گزار سکیں۔

حکومت پنجاب نے صوبے میں ترقی کے اہداف کے لئے وزیر اعلی پنجاب محمد شہباز شریف کے وژن کے مطابق ایک جامع اکنامک گروتھ سٹریٹجی ترتیب دی ہے۔میں اس سٹریٹجی کے نمایاں اہداف معزز ایوان کے سامنے پیش کرنا چاہتی ہوں جس میں صوبے کی معاشی ترقی کی شرح 2018ء تک سات سے آٹھ فیصد تک لے جانا،نوجوانوں کو روزگاری کی فراہمی کے لئے سالانہ دس لاکھ مواقع پیدا کرنا،2018 تک صوبے میں پرائیویٹ انوسٹمنٹ کو دوگنا کرنا،دہشت گردی کے خاتمے اور صوبے کے عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لئے تمام ممکنہ اقدامات کو یقینی بنانا،برآمدات میں اضافے کی شرح کو پندرہ فیصد تک لے جانا شامل ہے۔

ترقی اور خوشحالی کی اس منزل کا حصول صوبے کی معیشت کے استحکام اور اقتصادی شرح نمو میں اضافے پر منحصر ہے اور یہ اضافہ قومی زندگی کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری بڑھائے بغیر ممکن نہیں۔صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ ترقی اور روزگار کے حوالے سے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کے لئے صرف حکومتی سرمایہ کاری کافی نہیں ہو سکتی۔

یہی وجہ ہے کہ حکومت پرائیویٹ خصوصا غیر ملکی سرمایہ کاری کو صوبے کی طرف راغب کرنے کی ایک مربوط اور جامع پالیسی پر عمل پیرا ہے۔توانائی اور انفراسٹرکچر سمیت مختلف شعبوں میں غیر ملکی اور نجی سرمایہ کاروں کی دلچسپی اور شمولیت ہماری اسی پالیسی کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔مسلم لیگ(ن) کی حکومت کو پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی غیر ملکی سرمایہ کاری لانے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔

میری مراد چین کی طرف سے پاکستان میں چھیالیس ارب ڈالر کے تاریخی پیکج کا اعلان ہے۔میرا یقین ہے کہ یہ سرمایہ کاری ملکی معیشت کی تقدیر بدل دے گی۔ملک میں روزگار کے بے شمار مواقع پیدا ہوں گے اور پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے ایک شاندار دور کا آغاز ہو گا۔یہ تاریخی پیکج پاک چین دوستی کی علامت ہونے کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف کی قیادت اور پاکستانی عوام پر چین کے غیر معمولی اعتماد کا عکاس ہے۔

صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ میں اس موقع پر وزیر اعلی پنجاب محمد شہباز شریف کی دو برسوں پر محیط ان انتھک کوششوں کو خراج تحسین پیش کرنا ضروری سمجھتی ہوں جو انہوں نے وزیر اعظم پاکستان کی ٹیم کے ایک رکن کے طور پر اس پیکج کو ممکن بنانے کے لئے کیں۔جناب والا بجلی کے بحران اور لوڈشیڈنگ کے ستائے ہوئے عوام کے لئے ایک بڑی خوشخبری اور کیا ہو سکتی ہے کہ چھیالیس ارب ڈالر کے پیکج میں سے پینتیس ارب ڈالر کی خطیر رقم صرف بجلی پیدا کرنے پر صرف کی جائے گی۔

صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ مقام افسوس ہے کہ جس وقت پاکستان مسلم لیگ(ن) کی قیادت پاکستان کو اندھیروں سے نجات دلانے کے لئے اپنے دن رات ایک کئے ہوئے تھے۔پاکستان کے عوام اس تاریخی معاہدے پر دستخطوں کے لئے اپنے دوست ملک چین کے صدر کی آمد کے لئے چشم براہ تھے۔عین اس وقت کچھ لوگ پاکستان کے دارالحکومت میں دھرنوں کی آڑ میں اس دورے کو منسوخ کرانے کی ناپاک سازشوں میں مصروف تھے۔

مقام شکر ہے کہ ہماری قیادت کی بے مثال فراست‘سیاسی جماعتوں کے مثالی عزم اور عوام کے تاریخی اتحاد کے نتیجے میں اس سازش کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ میں سمجھتی ہوں کہ احتجاج اور انتشار کی سیاست کے ان پانچ مہینوں نے قوم پر عوام دشمن اور عوام دوست قیادت کا فرق واضح کر دیا ہے۔آج اﷲ کے فضل و کرم سے مسلم لیگ (ن) کی قیادت پورے اعتماد کے ساتھ عوام کی ترقی اور خوشحالی کے ان مخالفوں کو یہ کہہ سکتی ہے کہ تیری پسند تیرگی‘میری پسند روشنی۔

۔تو نے دیا بجھا دیا‘میں نے دیا جلا دیا۔ یہ معزز ایوان اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ ہماری حکومت نے معیشت کی بہتری کا سفر ابھی شروع کیا ہی تھا کہ اسے شدید ترین سیلاب کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ہمارے لئے یہ امر باعث اعزاز ہے کہ حکومت پنجاب آزمائش کی اس گھڑی میں سیلاب سے متاثرہ عوام کے ساتھ کھڑی رہی۔نارووال سے لے کے مظفر گڑھ تک شاید ہی کوئی گاؤں یا علاقہ ایسا ہو جہاں وزیر اعلی پنجاب سیلاب سے گھرے ہوئے اپنے مصیبت زدہ بہن بھائیوں کی دلگیری کے لئے خود نہ پہنچے ہوں۔

صوبائی وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں کہا کہ حکومت پنجاب نے اپنے وسائل سے سیلاب سے متاثرہ افراد کی فوری بحالی پر تقریبا بیس ارب روپے کی خطیر رقم صرف کی۔یہ رقم ’’خادم پنجاب امدادی پیکج‘‘ کے تحت انتہائی شفاف طریقے سے متاثرین سیلاب میں تقسیم کی گئی۔تقسیم کے اس عمل کی شفافیت کو بین الاقوامی سطح پر بھی سراہا گیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کی حکومت دعووں پر نہیں عمل پر یقین رکھتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہم نے راستے میں آنے والی تمام تر مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود اﷲ تعالی کے فضل و کرم سے اپنے تمام تر اعلانات اور وعدوں پر ممکنہ حد تک عملدرآمد کیا۔ ہم نے اس امر کو یقینی بنایا کہ اپنے ترقیاتی فلاحی پروگرام پروگرام کو زیادہ سے زیادہ وسائل فراہم کئے جائیں۔صوبائی وزیر خزانہ نے ایوان کو بتایا کہ مالی سال 2015-16ء کی کل آمدن کا تخمینہ ایک ہزار چار سو سینتالیس ارب چوبیس کروڑ روپے لگایاگیا ہے۔

جس میں آٹھ سو اٹھاسی ارب پچاس کروڑ روپے قابل تقسیم محاصل میں ٹیکسوں کی مد میں صوبائی حصہ ہے جو کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت حاصل ہو گا۔ علاوہ ازیں وفاقی حکومت سے سٹریٹ ٹرانسفرکی مد میں اکتیس ارب چارکروڑ روپے ملنے کی توقع ہے۔ مزید برآں صوبائی ریونیو میں دو سو چھپن ارب سات کروڑ روپے کی آمدن متوقع ہے جس میں ٹیکسوں کی مد میں ایک سو ساٹھ ارب انسٹھ کروڑ روپے اور نان ٹیکس کی مد میں پچانوے ارب سنتالیس کروڑ روپے شامل ہیں۔

مالی سال 2015-16ء کے جاری اخراجات کا کل تخمینہ ایک ہزار چار سو سینتالیس ارب چوبیس کروڑ روپے ہے۔ آئندہ مالی سال 2015-16ء کا سالانہ ترقیاتی پروگرام چار سو ارب روپے کا ترتیب دیا گیا ہے لہٰذا جاری اخراجات میں 7.6 فیصد اور ترقیاتی بجٹ میں 15.9 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔آئندہ مالی سال کا بجٹ قومی زندگی کے مختلف شعبوں میں ہماری ترجیحات کا آئینہ دار ہے۔

تعلیم کاشعبہ ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے جس کے لئے بجٹ میں صوبائی اور ضلعی سطح پر مجموعی طور پر سب سے بڑی رقم یعنی تقریباً تین سو دس ارب بیس کروڑ روپے مختص کئے جارہے ہیں۔ یہ رقم کل بجٹ کا ستائیس فیصد ہے۔ اسی طرح صحت عامہ کے شعبے میں ایک سو چھیاسٹھ ارب تیرہ کروڑ روپے کی خطیر رقم رکھی گئی ہے جو کہ بجٹ کا چودہ فیصد ہے۔ دیہی عوام کی ترقی اور زراعت کے فروغ کے لئے مجموعی طور پر مختلف شعبوں میں ایک سو چوالیس ارب انتالیس کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔

جو کہ کل بجٹ کا ساڑھے بارہ فیصد ہے۔ امن عامہ کی فراہمی پر آئندہ مالی سال میں ایک سو نو ارب پچیس کروڑ روپے صرف کئے جائیں گے جو کہ کل بجٹ کا ساڑھے نو فیصد ہے۔دہشت گردی کے علاوہ توانائی کا بحران اس وقت پاکستان کے لئے سنگین ترین مسئلے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ملک میں بجلی کی پیداوار میں اضافے اور توانائی کے بحران کو ختم کرنے کے لئے 2013ء میں وزیر اعظم محمد نواز شریف کی قیادت میں برسر اقتدار آنے والی مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت کی انتھک کوششیں کسی وضاحت کی محتاج نہیں۔

اس وقت پنجاب میں وفاقی حکومت اور پنجاب کی حکومت کے تحت مجموعی طور پرتوانائی کے چھ سو اٹھارہ ارب روپے کے منصوبے زیر تکمیل ہیں۔ ان منصوبوں میں حکومت پنجاب دو سو اٹھاون ارب روپے کی خطیر رقم کی سرمایہ کاری کررہی ہے۔ جبکہ پنجاب میں لگنے والے بجلی کے ان منصوبوں میں چین کی طرف سے تین سو ساٹھ ارب روپے کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔س وقت پنجاب میں وفاقی حکومت اور پنجاب کی صوبائی حکومت کے تحت مجموعی طور پر توانائی کے چھ سو اٹھارہ ارب روپے کے منصوبے زیر تکمیل ہیں۔

ان منصوبوں میں حکومت پنجاب دو سو اٹھاون ارب روپے کی خطیر رقم کی سرمایہ کاری کررہی ہے۔ جبکہ پنجاب میں لگنے والے بجلی کے ان منصوبوں میں چین کی طرف سے تین سو ساٹھ ارب روپے کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔صوبائی وزیر خزانہ نے زیر تکمیل توانائی کے منصوبوں کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ساہیوال میں ایک ہزار تین سو بیس میگا واٹ کے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر پر کام کا آغاز ہو چکاہے جس پر ایک سو اسی ارب روپے لاگت آئے گی۔

جنوبی پنجاب میں بہاولپور کے ریگستانی علاقے میں‘ جہاں سوائے ریت کے ٹیلوں کے کچھ بھی نہ تھا‘ وہاں پاکستان کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا شمسی توانائی پر مبنی ’’قائد اعظمؒ سولر پارک‘‘ قائم کیا جاچکا ہے‘ جہاں سے ایک سو میگا واٹ بجلی حاصل کی جارہی ہے۔ اس سولر پارک میں مزید نو سو میگا واٹ شمسی توانائی کا منصوبہ شروع کر دیا گیا ہے۔

اس منصوبے پر تقریباً ایک سو پینتیس ارب روپے لاگت آئے گی۔ یہ منصوبہ انشاء اﷲ اگلے سال مکمل ہو جائے گا۔ اس منصوبے کے نتیجے میں جنوبی پنجاب میں نہ صرف معاشی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا بلکہ صنعتی اور زرعی شعبے میں علاقے کے عوام کے لئے روزگار کے بے شمار مواقع میسر آئیں گے۔پنڈدادن خان کے مقام پر تین سو میگا واٹ بجلی کا پراجیکٹ لگایا جارہا ہے۔

پینتالیس ارب روپے مالیت کے اس منصوبے میں بجلی پیدا کرنے کے لئے مقامی کوئلہ استعمال کیا جائے گا۔ انشاء اﷲ یہ تینوں منصوبے جن کا ذکر میں نے کیا ہے 2017ء کے اختتام تک دو ہزار چھ سو بیس میگا واٹ بجلی پیدا کرنا شروع کر دیں گے۔حکومت پنجاب بھکھی‘ ضلع شیخوپورہ میں ایک سو دس ارب روپے کی لاگت سے گیس سے چلنے والا ایک ہزار دو سو میگا واٹ کا پاور پلانٹ شروع کر رہی ہے۔

یہ منصوبہ انشاء اﷲ ابتدائی مرحلے میں مارچ 2017ء میں بجلی فراہم کرنا شروع کردے گا اور 2017ء کے آخر تک اس منصوبے سے مکمل استعدادکے مطابق بجلی حاصل کی جاسکے گی۔ آئندہ مالی سال میں اس منصوبے کے لئے پندرہ ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ان بڑے منصوبوں کے علاوہ حکومت پنجاب علاقائی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے چھوٹے منصوبوں پر بھی کام کر رہی ہے۔

سندر انڈسٹریل اسٹیٹ‘ لاہور اور فیصل آباد انڈسٹریل اسٹیٹ میں ایک سو دس میگا واٹ کے کوئلہ سے چلنے والے منصوبوں پر عملدرآمد کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ ان دونوں منصوبوں پر تینتیس ارب روپے کی لاگت آئے گی۔ پنجاب میں لوڈ سنٹرز کے قریب ایک سو پچاس میگا واٹ کے کوئلے سے چلنے والے چار پاور پلانٹس لگائے جارہے ہیں جن پر نوے ارب روپے لاگت آئے گی۔

یہ پاور پلانٹس لاہور‘ ملتان‘ فیصل آباد اور سیالکوٹ میں لگائے جائیں گے۔حکومت پنجاب نے دس ارب روپے کی لاگت سے بیس میگا واٹ بجلی کے چار ہائیڈل پاور پراجیکٹس مرالہ‘ پاکپتن‘ چیانوالی اور Deg Outfall میں شروع کئے ہیں۔ مرالہ اور پاکپتن کے منصوبے تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ ان دونوں منصوبوں سے بجلی اسی سال ستمبر میں پیداہونا شروع ہو جائے گی۔

اسی طرح چیانوالی اور Deg Outfall کے منصوبے بھی جون 2016ء تک مکمل ہو جائیں گے۔صوبائی وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں کہا کہ پنجاب میں نجی شعبے کو بجلی میں سرمایہ کاری کی طرف راغب کیا جارہاہے۔ رحیم یار خان اور مظفر گڑھ میں ایک ہزار تین سو بیس میگا واٹ کے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے دو منصوبوں پر ابتدائی کام شروع ہو چکاہے۔ مزید برآں کوئلے کے مجموعی طور پرنو سو میگا واٹ کے چھ پاور پلانتس کے منصوبے بھی نجی شعبے کے حوالے کئے جائیں گے۔

صوبے بھر میں شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے لئے پچاس سائٹس نجی شعبے کو پیش کی گئی ہیں جس پر نجی شعبے کے سرمایہ کاروں کی جانب سے دلچسپی کا اظہار کیا گیا ہے۔صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ مجھے پختہ یقین ہے کہ یہ منصوبے توانائی کے بحران پر قابو پانے اور عوام کو لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات دلانے میں بے حد مددگار ثابت ہوں گے۔صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ موجودہ حکومت صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ معدنی ذخائر سے استفادہ کرنے کے لئے ایک موثر‘ مربوط اور نتیجہ خیز حکمت عملی پر گامزن ہے۔

معدنیات کے شعبے کے لئے مالی سال 2015-16ء میں دو ارب سترہ کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ ضلع چنیوٹ میں رجوعہ کے مقام پر لوہے اور تانبے کے وسیع ذخائر کی دریافت حکومت کی اسی حکمت عملی کا ثمر ہے۔رجوعہ کے ان ذخائر کے ماضی میں جس پر مجرمانہ غفلت اور بددیانتی کا مظاہرہ کیا گیا اس کی تفصیل ایک دردناک داستان سے کم نہیں۔ پچھلی حکومت نے بغیر کسی قسم کے ٹینڈر کے اس کی تلاش ایک ایسی نام نہاد کمپنی کو دے دی جس کامعدنی ذخائر کی تلاش سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔

پچھلی حکومت کا یہ اقدام ملکی وسائل پر ڈاکہ زنی سے کم نہیں تھا۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہو گی کہ موجودہ حکومت کے تحت قواعد و ضوابط اور شفافیت کے اعلیٰ ترین تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی ٹینڈرز کے بعد یہ کام برادر ملک چین کی ایک ایسی کمپنی کو دیاگیا ہے جس کا شمار متعلقہ شعبے میں دنیا کی بہترین کمپنیوں میں ہوتا ہے۔صوبائی وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں کہا کہ زراعت ہماری ملکی معیشت کے لئے رگ حیات کا درجہ رکھتی ہے۔

صوبے کی پینتالیس فیصد آبادی کا روزگار زراعت سے وابستہ ہے اور مجموعی قومی پیداوار میں زرعی شعبے کا حصہ اکیس فیصد ہے۔ ہماری قومی برآمدات میں زراعت کا حصہ ساٹھ فیصد ہے۔ حکومت پنجاب زرعی شعبے کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے ایک ایسے فعال شعبے میں تبدیل کرنا چاہتی ہے جو نہ صرف فوڈ سکیورٹی چیلنجزسے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہو بلکہ بین الاقوامی معیار کی مصنوعات بھی پیدا کرسکے۔

کاشتکاوں کو ان کی زرعی پیداوار کی مناسب قیمت دلائے بغیر زرعی ترقی کی منزل حاصل نہیں کی جاسکتی۔ کون نہیں جانتا کہ دیہات میں ذرائع آمدورفت کی موجودہ انتہائی قابل افسوس صورت حال کی وجہ سے ہمارے کسانوں کی پیدا کی ہوئی اجناس نہ ہو تو بروقت منڈیوں میں پہنچ پاتی ہے اور نہ ہی ان کی مناسب قیمت ملتی ہے۔ حکومت پنجاب نے زرعی اجناس کی سستی نقل و حمل کے لئے صوبے بھر کے دیہی علاقوں میں مرحلہ وار پروگرام کے تحت ایک سو پچاس ارب روپے کی مالیت سے نئی سڑکیں تعمیر کرنے اور پرانی سڑکوں کی مرمت اور توسیع کا ایک عظیم الشان منصوبہ بنایا ہے۔

یہ منصوبہ پاکستان کی تاریخ میں زرعی سڑکوں کی تعمیر کا سب سے بڑا منصوبہ ہو گا۔ اس پروگرام کے تحت بننے والی تمام سڑکیں مکمل طور پر کارپٹڈہوں گی اور ہر سڑک کے دونوں طرف دو دو فٹ کا ٹریٹد شولڈرہو گا۔ حکومت نے اس منصوبے کے لئے آئندہ مالی سال میں باون ارب روپے مختص کئے ہیں۔حکومت نے گزشتہ برسوں میں اہم فیصلوں کی پیداوار میں اضافہ کے لئے کئی اہم اقدامات کئے جن کے بہتر اور حوصلہ افزاء نتائج برآمد ہوئے ہیں۔

پنجاب میں اری گیٹڈ ایگریکلچرل کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لئے اکیس ارب روپے کے میگا پراجیکٹ ’’ پنجاب اریگیٹڈایگریکلچرل پروڈکٹویٹی امپرومنٹ ‘‘پر عملدرآمد جاری ہے۔ اس منصوبے کے تحت حکومت کی طرف سے فراہم کی گئی سبسڈی کے ذریعے ایک لاکھ بیس ہزار ایکڑ رقبہ پر ڈرپ اینڈ سپرنکراری گیشنکی تنصیب کی گئی اور نو ہزار واٹر کورسزکی اصلاح کی گئی ہے۔

آئندہ مالی سال کے دوران اس پراجیکٹ کے لئے چار ارب اٹھاون کروڑ روپے کی رقم مختص کی جارہی ہے۔وزیر خزانہ نے بتایا کہ آئندہ مالی سال میں حکومت چھوٹے کاشتکاروں کو سستے ٹریکٹر فراہم کرنے کے لئے پانچ ارب روپے کی سبسڈی مہیا کر رہی ہے‘ جس سے کسانوں میں پچیس ہزار ٹریکٹر ماضی کی طرح میرٹ کی بنیاد پر نہایت شفاف طریقے سے فراہم کئے جائیں گے۔

ٹریکٹرز کے علاوہ کسانوں کو دیگر زرعی آلات اور اشیاء فراہم کرنے کے لئے ایک ارب روپے سے زائد رقم مختص کرنے کی تجویز ہے۔صوبے میں ایک جامع منصوبے کے تحت بیراجوں کی مرمت اور بحالی کے کام کاآغاز کیا جاچکا ہے۔ جناح بیراج کی بحالی کا منصوبہ بارہ ارب 67 کروڑ روپے کی لاگت سے آئندہ مالی سال میں پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا جس کے لئے بجٹ میں نوے کروڑ روپے رقم مختص کی گئی ہے۔

23 ارب 44 کروڑ روپے کی مالیت سے زیر تعمیر نئے خانکی بیراج کے لئے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں چھ ارب پندرہ کروڑ روپے کی خطیر رقم رکھی گئی ہے۔ سیالکوٹ‘ کامونکی اور اس کی ملحقہ آبادیوں کو سیلاب سے بچانے کے لئے ایک مرحلہ وار پروگرام کے تحت آٹھ ارب روپے کی مالیت کے منصوبے تیار کئے گئے ہیں۔ آئندہ مالی سال میں آبپاشی کے نظام کو بہتر بنانے کی غرض سے محکمہ آبپاشی کے لئے پچاس ارب تراسی کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔

صوبائی وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا کہ اس وقت ملکی پیداوار میں لائیو سٹاک کا حصہ تقریباً بارہ فیصد اور زرعی پیداوار میں چھپن فیصد ہے۔ آئندہغ مالی سال میں اس شعبے کے لئے آٹھ ارب انسٹھ کروڑروپے مختص کئے جارہے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک اہم اقدام صوبے میں مویشی پالنے اور ان کا کاروبار کرنے والے غریب کسانوں کو بھتہ مافیا سے نجات دلانے کے لئے خادم پنجاب کی ہدایت پر یکم جولائی 2014ء سے جانوروں کی خرید و فروخت پرمنڈی مویشیاں میں عائد کردہ فیس کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔

اب ان منڈیوں کا انعقاد ڈویژنل کی سطحپر قائم کی گئی مینجمنٹ کمپنیز کو دیا گیا ہے۔ موجودہ مالی سال میں حکومت پنجاب نے شیخوپورہ اور فیصل آباد میں تمام ضروری سہولتوں سے آراستہ دو ماڈل مویشی منڈیاں قائم کی ہیں۔ آئندہ مالی سال میں اسی کروڑ روپے کی لاگت سے مزید ماڈل مویشی منڈیوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔کاشتکاروں کے مفادات کا تحفظ ہماری حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔

ہم نے ہر مرحلے پر اس امر کو یقینی بنایا کہ صوبے کے کاشتکاروں کو ان کی محنت کا پورا پورا معاوضہ ملے۔ گزشتہ دنوں حکومت پنجاب نے مل مالکان سے کاشتکاروں کو گنے کی ایک سو اسی روپے فی من مقررہ قیمت دلانے میں جو کسان دوست کردار ادا کیا اس سے ہم سب اچھی طرح آگاہ ہیں۔صوبائی وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا کہ پینے کا صاف پانی زندگی ایک ایسی بنیادی ضرورت ہے جس پر ہر فرد کا حق ہوناچاہئے۔

لیکن آج ہمارے شہروں اور دیہات میں مقیم عوام کی بڑی تعداد اس بنیادی ضرورت سے محروم ہے۔ حکومت پنجاب نے اپنے عوام کو صاف پانی مہیا کرنے کے لئے ایک عظیم منصوبہ تشکیل دیا ہے۔ عوام کو صاف پانی کی فراہمی کے اس منصوبے کا آغاز جنوبی پنجاب کے دیہات سے جلد کیاجارہا ہے۔ ہمارا عزم ہے کہ ہم انشاء اﷲ ’’پنجاب صاف پانی پروگرام‘‘ کے تحت آئندہ تین سالوں کے دوران ستر ارب روپے کی خطیر رقم سے صوبے بھر کے دیہات میں چار کروڑ سے زائد افراد کو صاف اور محفوظ پانی کی سہولت فراہم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

حکومت پنجاب نے مالی سال 2015-16ء کے دوران اس منصوبے کے لئے گیارہ ارب روپے کی رقم مختص کی ہے۔صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ دنیا کی کوئی قوم تعلیم کو فروغ دیئے بغیر ترقی کی منازل طے نہیں کرسکتی۔ اہل دانش تعلیم کے شعبے میں صرف ہونے والے وسائل کو اخراجات نہیں بلکہ قوموں کے بہتر مستقبل کے لئے سرمایہ کاری تصور کرتے ہیں۔

حکومت پنجاب نے اسی حقیقت کے پیش نظر اگلے مالی سال میں تعلیم کے شعبے میں صوبائی اور ضلعی سطح پر مجموعی طور پر تقریباً تین سو دس ارب بیس کروڑ روپے مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکی ہوں‘ یہ رقم کل بجٹ کا تقریباً ستائیس فیصد ہو گی۔ تعلیم کے شعبے میں ہونے والی پیشرفت کی نگرانی وزیر اعلیٰ پنجاب بذات خود سٹاک ۔ٹیک کے ذریعے کرتے ہیں جس کے نتیجے میں تعلیم کے فروغ اور تعلیمی معیار میں اضافے کے حوالے سے خاطر خواہ پیش رفت سامنے آئی ہے۔

ہماری حکومت نے معاشی طور پر پسماندہ مگر ذہین طلباء کو معیاری تعلیم مہیا کرنے کے لئے چودہ دانش سکول قائم کئے ہیں۔ جبکہ اگلے مالی سال میں صوبے کے پسماندہ علاقوں میں چار نئے دانش سکول قائم کئے جائیں گے۔ترقیاتی بجٹ سے نو سو نوے ہائی سکولز میں کمپیوٹر لیب کی تنصیب‘ سات ہزار پانچ سو سکولوں میں مسنگ فسیلٹیزکی فراہمی‘ چار ہزار سات سو ستائیس کی سکولوں کی بلڈنگز کی دوبارہ تعمیر‘ سکولوں میں چوبیس ہزار پانچ سو اضافی کمروں کی تعمیر اور پانچ سو نئے سکول کھولے جائیں گے۔

اگلے مالی سال میں ہائر ایجوکیشن کے شعبے میں نئے کالجز اور یونیورسٹیوں کے قیام کے علاوہ موجودہ کالجوں میں اضافی سہولتیں یعنی کلاس روم اور لیبارٹریز مہیا کی جائیں گی۔ آئندہ مالی سال میں وہاڑی میں بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے سب کیمپس کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ جبکہ جھنگ اور ساہیوال میں نئی یونیورسٹیاں قائم کی جائیں گی۔صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ صحت عامہ کا تحفظ اور صوبے کے عوام کو علاج معالجہ کی مناسب اور بروقت سہولتیں پہنچانا حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔

صحت کے شعبہ میں اگلے مالی سال 2015-16ء کے لئے صوبائی اور ضلعی سطح پر مجموعی طور پر تقریباً ایک سو چھیاسٹھ ارب تیرہ کروڑ روپے مختص کئے جارہے ہیں جو کہ بجٹ کا چودہ فیصد ہے۔صحت عامہ کے فروغ اور عوام کو علاج کی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے 2014-15ء میں ہیلتھ سیکٹر ریفارمز روڈ میپ پروگرام شروع کیا گیا تھا۔ اس روڈ میپ پروگرام کی نگرانی بھی وزیر اعلیٰ باقاعدگی سے سٹاک ۔

ٹیک کے ذریعے کرتے ہیں۔ اس پروگرام کے تحت سات سو بنیادی مراکز صحت کو علاج معالجہ کے جدید سنٹرز میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ اسی طرح ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اور تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں میں سپیشلسٹ ڈاکٹروں کی موجودگی‘ دواؤں کی دستیابی اور ضروری آلات جراحی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے موثر اقدامات کئے گئے ہیں۔ حکومت نے اس مقصد کے لئے سپیشلسٹ ڈاکٹروں کے لئے ایک ارب اکتالیس کروڑ روپے کا نہایت پرکشش اور خصوصی انسنٹو پیکج منظور کیا ہے۔

صوبائی وزیر خزانہ نے بتایا کہ حکومت پنجاب نے جنرل کیڈر ڈاکٹروں کی بروقت ترقیوں کے لئے تاریخی اقدامات کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ کی خصوصی ہدایت پر موجودہ مالی سال 2014-15ء میں فور ٹیئر سٹرکچرکے تحت گریڈ اٹھارہ سے بیس تک ڈاکٹرز کی دس ہزار سے زائد نئی آسامیاں پیدا کی جاچکی ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف ہسپتالوں کے لئے آٹھ ہزار چار سو مزید آسامیاں بھی منظور کی گئی ہیں۔

صوبائی ہسپتالوں میں ادویات کی فراہمی کے لئے اگلے مالی سال 2015-16ء میں دس ارب بیاسی کروڑ روپے رکھنے کی تجویز ہے۔صوبے میں غریب ترین طبقہ کوہیلتھ کورمہیا کرنے کے لئے ہیلتھ انشورنس سکیم کا اجراء کیاجارہا ہے۔ اس سکیم کے پہلے مرحلے میں آٹھ اضلاع شامل کئے گئے ہیں جس کے لئے دو ارب پچاس کروڑ روپے مختص کئے جارہے ہیں۔مظفر گڑھ میں ترکی کی مدد سے بنائے جانے والے رجب طیب اردگان ہسپتال کی توسیع کے لئے ایک ارب روپے مختص کئے جارہے ہیں۔

صوبے کے دور دراز علاقوں میں صحت کی بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لئے موبائل ہیلتھ یونٹ کے منصوبے میں توسیع کی جارہی ہے۔ جس کے لئے ایک ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔پاکستان کے ہسپتالوں میں جگر کی پیوند کاری کی سہولت موجود نہیں ہے۔ اس وقت بے شمار کم وسیلہ اور غریب افراد علاج کی عدم دستیابی اور بیرونی ممالک تک رسائی کے لئے مطلوبہ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

اس درد اور تکلیف کا احساس کرتے ہوئے حکومت پنجاب ایک سٹیٹ آف دی آرٹ پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ اینڈریسرچ سنٹر پر کام شروع کر چکی ہے۔ اس منصوبے کے لئے 2015-16ء میں تین ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔صوبائی وزیر خزانہ نے کہاکہ ہمارے سرکاری اور نجی شعبے میں نوجوانوں کی اہلیت اور ان کی تعلیم کے مطابق روزگار کے وافرمواقع موجود نہیں ہیں۔

دوسری طرف ہمارے صنعتی شعبے کو ہنر مند افراد کی کمی کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر حکومت نے صوبے میں موجود فنی تربیت کے بہترین اداروں میں عالمی معیار کے کورسز میں تربیت دینے کے لئے آئندہ مالی سال میں چار ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی ہے۔ اس پروگرام کے نتیجے میں 2018ء تک بیس لاکھ نوجوانوں کو ایسے شعبوں میں‘ جن کی ہماری صنعتوں اور بین الاقوامی منڈیوں میں ضرورت ہے‘ تربیت دے کر مقامی اور بین الاقوامی سطح پر روزگار حاصل کرنے کے قابل بنا دیا جائے گا۔

صوبائی وزیر خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعد پاکستان کو قائداعظمؒ محمد علی جناح اور شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ کی تعلیمات کے مطابق ایک عوامی اور فلاحی مملکت بنانے کی بجائے یہاں ایسی سیاسی اور معاشی پالیسیاں بنائی گئیں جن کے نتیجے میں تمام ملکی وسائل اور زندگی کی تمام سہولتیں محض ایلیٹ طبقے تک سمٹ کر رہ گئیں۔

کوئی درد مند پاکستانی اس بات سے اتفاق کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ 1971ء میں پاکستان کی تقسیم یقینا ایک بڑاسانحہ تھی لیکن آج قیام پاکستان کو ستاسٹھ سال گزرنے کے باوجود پاکستانی معاشرے کی زندگی کی بنیادی سہولتوں اور وسائل کی بنیاد پر مستقل تقسیم بھی کوئی چھوٹا سانحہ نہیں۔اس سنگین صورت حال کے خاتمے اور معاشرے کے پسماندہ‘ کم وسیلہ اور روایتی طور پر نظر انداز کئے گئے طبقات کے لئے زیادہ سے زیادہ وسائل فراہم کرنے کے لئے میں حکومت پنجاب کے چیدہ چیدہ منصوبوں اور اقدامات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتی ہوں۔

اس ضمن میں سب سے پہلے وزیر اعلیٰ خود روزگار سکیم کا ذکر کرنا چاہوں گی۔ اس سکیم کے تحت غریب افراد کو پچاس ہزار روپے تک بلاسود قرضے فراہم کئے جاتے ہیں۔ 2011ء سے لے کر اب تک تقریباً گیارہ ارب روپے کے بلا سود قرضے تقریباً چھ لاکھ افراد کو دیئے جاچکے ہیں۔ یہ قرضے انتہائی شفاف انداز میں میرٹ کی بنیاد پر بلاسود قرضوں کے ادارے ’’اخوت‘‘ کے ذریعے فراہم کئے گئے۔

حکومت پنجاب نے آئندہ مالی سال میں اس پروگرام کے لئے مزید دو ارب روپے مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس رقم سے بلاسود قرض لے کر کاروبار کرنے والوں کی تعداد دس لاکھ سے بھی بڑھ جائے گی۔وزیر خزانہ نے بتایا کہ حکومت پنجاب نے غریب اور کم آمدنی والے افراد کو معاشی اور معاشرتی تحفظ فراہم کرنے کے لئے حال ہی میں پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی قائم کی ہے۔

یہ اتھارٹی آئندہ مالی سال میں دو ارب روپے کی لاگت سے اپنے پہلے منصوبے کاآغاز کر رہی ہے۔ جس کے تحت صوبے میں معذور افراد کی امداد اور ان کی معاشی اور سماجی بحالی کے لئے ماہانہ وظائف دیئے جائیں گے۔حکومت لاواث اور بے سہارا بچوں کو تحفظ اور بہتر ماحول فراہم کرنے کے لئے مختلف شہروں میں چائلڈ پروٹیکشن انسٹی ٹیوٹ تعمیر کر رہی ہے۔ رحیم یار خان میں زیر تعمیرانسٹی ٹیوٹ رواں مالی سال میں مکمل ہو جائے گا۔

جبکہ بہاولپور اور ساہیوال میں چھبیس کروڑ روپے کی لاگت سے ایسے چائلڈ پروٹیکشن انسٹی ٹیوٹ کی تعمیر ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ بے سہارا خواتین کے لئے ملتان‘ لودھراں پاکپتن‘ قصور‘ لیہ‘ حافظ آباد اور شیخوپورہ میں دارالامان قائم کئے جائیں گے۔زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے دوسرے طبقات کی طرح پنجاب حکومت سپیشل افراد کی فلاح و بہبود پر بھی پوری توجہ دے رہی ہے۔

اس وقت صوبے بھر کے دو سو پچاس اداروں میں تقریباً 29 ہزار خصوصی طلباء و طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں جنہیں مفت رہائش‘ کھانے‘ امدادی آلات اور یونیفارم کے علاوہ وظائف بھی دیئے جارہے ہیں۔ہماری معیشت کی ترقی ان محنت کشوں کی مرہون منت ہے جو اپنا خون پسینہ ایک کرکے صنعتوں کے پہیوں کو رواں دواں رکھتے ہیں۔ لیکن اس امر سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ہمارے محنت کشوں کی زندگیاں آج بھی اقبالؒ کے اس شعر کی عملی تفسیر ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات۔

محنت کشوں کے شب و روز کی اس تلخی کو کم کرنے کے لئے حکومت پنجاب صوبے میں کئی منصوبوں پر عمل کر رہی ہے۔ قومی معیشت کے ان معماروں کو مالکانہ حقوق پر مفت رہائش کی سہولت مہیا کرنے کے لئے سندر اور ملتان میں دس ارب روپے کی مالیت کے منصوبے شروع کئے ہیں۔ اسی طرح حکومت پنجاب نے رواں مالی سال میں محنت کشوں اور اس کے اہل خانہ کے لئے فیصل آباد میں ایک سو بیس بستروں پر مشتمل میٹرنٹی اینڈ چائلڈ ہیلتھ کیئر سنٹر اور رحیم یار خان اور جھنگ میں پچاس پچاس بستروں پر مشتمل سوشل سکیورٹی ہسپتالوں کا منصوبہ شروع کیا ہے۔

صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ قیام پاکستان سے لے کر استحکام پاکستان کی جدوجہد میں اقلیتوں کے قابل قدر کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ہمارے معاشرے کا نہایت اہم حصہ ہیں۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں اقلیتوں کے لئے ایک ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اس رقم سے طلباء کو وظائف بھی دیئے جائیں گے۔صوبائی وزیر خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا یہ عزم ہے کہ پنجاب میں بسنے والا کوئی باصلاحیت اور ذہین طالب علم محض وسائل کی کمی کی وجہ سے اعلیٰ اور معیاری تعلیم سے محروم نہ رہے۔

اس مقصد کے لئے ذہین اور محنتی طلباء کو وظائف دینے کے لئے آئندہ مالی سال میں پنجاب ایجوکیشنل انڈولمنٹ فنڈ کے لئے دو ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ جس کے بعد اس فنڈ کی مالیت ساڑھے پندرہ ارب روپے تک پہنچ جائے گی اور اگلے برس تک اس فنڈ سے وظائف حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد ایک لاکھ سے بڑھ جائے گی۔حکومت پنجاب کی طرف سے صوبے کے لاکھوں غریب والدین کو یہ سہولت دی گئی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری خرچ پر اپنی پسند کے پرائیویٹ سکولوں میں تعلیم دلا سکیں۔

چنانچہ اس وقت پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے ذریعے سولہ لاکھ سے زائد بچے پرائیویٹ سکولوں میں بالکل مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ غریب عوام کے بچوں کی تعلیم کے اس پروگرام کے لئے دس ارب پچاس کروڑ روپے سے زائد رقم مختص کرنے کی تجویز ہے۔صوبائی وزیر خزانہ نے بجٹ تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ صوبے کے بے روزگار نوجوان مردوں اور خواتین کو باعزت روزگار فراہم کرنے کے لئے ’’اپنا روزگار سکیم‘‘ کے تحت پچاس ہزار گاڑیاں فراہم کی جارہی ہیں۔

اکتیس ارب روپے کی اس سکیم میں جنوبی پنجاب کے لئے دس فیصد اضافی کوٹہ مختص کیا گیا ہے۔ گاڑیوں کی لاگت کا سو فیصد مارک اپ حکومت پنجاب خود ادا کرتی ہے اور ان کی تقسیم کمپیوٹر پر قرعہ اندازی کے ذریعے انتہائی شفاف طریقے سے کی جاتی ہے۔ حکومت پنجاب کی طرف سے اس سکیم کے لئے مجموعی طور پر چھ ارب سینتیس کروڑ روپے کی سبسڈی فراہم کی جائے گی۔آشیانہ ہاؤسنگ سکیم کے ذریعے کم آمدنی کے حامل افراد کو رہائشی سہولیات فراہم کرنے کے پروگرام پر عملدرآمد جاری ہے۔

اس ضمن میں اب تک لاہور‘ فیصل آباد اور ساہیوال میں اعلیٰ معیار کی رہائشی سکیمیں مکمل کی جاچکی ہیں۔ آئندہ مالی سال کے دوران صوبے کے مختلف مقامات پر ایسی مزید سکیموں کا آغاز کیا جائے گا۔صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ اس وقت پاکستان کو جن سنگین ترین مسائل کا سامنا ہے ان میں دہشت گردی سرفہرست ہے۔ حکومت پنجاب دہشت گردی کے اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیں استعمال کر رہی ہے۔

پنجاب کو پاکستان کی تاریخ کی پہلی کاؤنٹر ٹیرر ازم فورس بنانے کا اعزاز حاصل ہے۔ ایک ہزار پانچ سو کارپورلز پرمشتمل اس فورس میں بھرتی کے لئے میرٹ اور اہلیت کے کڑے اصولوں کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔حکومت نے بڑے شہروں میں ’’سیف سٹی ‘‘ پروگرام کا اجراء کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کا آغاز صوبائی دارالحکومت سے کیا جارہا ہے اور اس کے لئے اگلے مالی سال کے دوران چار ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔

اس پروگرام کے تحت جدید آلات اور کیمروں کے ذریعے نگرانی اور قانون شکن اور شرپسند عناصر کی نشاندہی اور انہیں ایک لمحہ ضائع کئے بغیر قانون کی گرفت میں لانے کا ایک مربوط نظام تیار کیا جارہا ہے۔ امید کی جاتی ہے یہ منصوبے لاہور میں دسمبر 2015ء تک اور راولپنڈی‘ فیصل آباد‘ ملتان اور گوجرانوالہ میں 2016ء کے دوران مکمل ہو جائیں گے۔صوبائی وزیر خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ عوام کو روایتی تھانہ کلچر سے نجات دلانے اور ایک خوشگوار ماحول میں ان کی شکایات کے فوری ازالے کے لئے صوبے بھر میں مختلف مقامات پر اسی پولیس سروس سنٹرز قائم کئے جارہے ہیں۔

2015-16ء کے لئے محکمہ پولیس کے بجٹ میں مجموعی طور پر 94 ارب 67 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز پیش کی جارہی ہے۔ یہ رقم دوسرے اخراجات کے علاوہ جدید خطوط پرتربیت‘ جدید سازو سامان کی فراہمی اور ٹیکنالوجی کے ذریعے پولیس کی کارکردگی کو بہتر بنانے پر صرف کی جائیگی۔صوبے کے عوام کے لئے سستے اور بلاتاخیر انصاف کی فراہمی حکومت کا نصب العین ہے۔

چنانچہ حکومت پنجاب نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کی تین سو سترہ اور سول ججز کی چھ سو چھیانوے نئی آسامیاں پیدا کی ہیں۔ صوبے میں مختلف عدالتوں کے لئے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں اٹھارہ ارب گیارہ کروڑ روپے مختص کئے جارہے ہیں۔صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں زندگی کی دیگر سہولتوں کی طرح آرام دہ اور باوقار ٹرانسپورٹ پر بھی محض صاحب ثروت طبقے کا حق سمجھا جاتا تھا۔

وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس تکلیف دہ صورت حال کے خاتمے اور عوام کو سستی اور انتہائی معیاری ٹرانسپورٹ فراہم کرنے کے لئے میٹرو بس ٹرانسپورٹ کلچر متعارف کرایا۔ حکومت پنجاب نے لاہور میٹرو بس کے کامیاب منصوبے کے بعد راولپنڈی اسلام آباد میں پاکستان میٹرو بس کا منصوبہ بھی اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے تقریباً چوالیس ارب پچاسی کروڑ روپے کی لاگت سے ریکارڈ مدت میں مکمل کرلیا ہے۔

اس سسٹم کے تحت چلنے والی ایئر کنڈیشنڈ بسیں روزانہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ مسافروں کو سفر کی سہولت مہیا کر رہی ہیں۔ میٹرو بس کی تعمیر کا اگلا منصوبہ ملتان میں شروع کیا جاچکا ہے۔ اس کے علاوہ صوبائی دارالحکومت کے لئے ستائس کلومیٹر طویل پاکستان کی تاریخ کا پہلا میٹرو ٹرین اونج لائن کا منصوبہ جلد شروع کیا جائے گا۔صوبائی وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں کہا کہ کون نہیں جانتا کہ پاکستان کی تاریخ کے ہر دور میں مختلف جماعتوں اور رہنماؤں کی طرف سے جنوبی پنجاب کی پسماندگی کو محض سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کیا گیا۔

مگر پاکستان مسلم لیگ (ن) کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے جنوبی پنجاب کی ترقی اور خوشحالی کو ہمیشہ مقدم رکھتے ہوئے صوبے کے بجٹ میں جنوبی پنجاب کے لئے مختص فنڈز کی رقم کو اس کی آبادی کے تناسب سے کہیں زیادہ رکھا۔ ہم نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں بھی اس مثبت روایت کو برقرار رکھا ہے۔انہوں نے کہا کہ جنوبی پنجاب کی تعمیر و ترقی کے چیدہ چیدہ منصوبے اس ایوان کے سامنے ضرور رکھنا چاہوں گی جس میں چھبیس ارب روپے کی لاگت سے ملتان میں میٹرو بس کا منصوبہ،تیس ارب روپے سے جنوبی پنجاب کے گیارہ اضلاع میں ’’صاف پانی پروگرام‘‘ کا اجراء،ایک سو پچاس ارب روپے سے بہاولپور میں قائد اعظم سولر پارک کا قیام،ستاسٹھ ارب پچاس کروڑ روپے سے دیہی سڑکوں کی تعمیر اور مرمت کا عظیم الشان منصوبہ،نو ارب اڑتیس کروڑ روپے سے رحیم یار خان میں خواجہ فرید انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی ‘بہاولپور میں ویٹرنری یونیورسٹی ‘ملتان میں میاں محمد نواز شریف زرعی یونیورسٹی اور بہاولنگر میں میڈیکل کالج کے قیام کے علاوہ مظفر گڑھ میں طیب اردگان ہسپتال کی پانچ سو بیڈ تک توسیع۔

،چار ارب روپے سے زائد کی رقم سے بہاولپور‘ بہاولنگر‘ مظفر گڑھ اور راجن پور کے اضلاع میں غربت کے خاتمے کے لئے سدرن پنجاب پاورٹی ایلی ویشن پروگرام کا اجراء،ایک ارب تیس کروڑ روپے سے چولستان میں وزیر اعلیٰ پیکیج کے تحت خصوصی ترقیاتی پروگرام،دس ارب ساٹھ کروڑ روپے سے ڈیرہ غازیخان اور راجن پور میں رود کوہیوں سے آنے والے سیلابی ریلوں کی روک تھام کے منصوبے،تین ارب اڑتیس کروڑ روپے سے ڈی جی خان کے قبائلی علاقوں کے لئے خصوصی ترقیاتی پیکیج اورچار ارب نوے کروڑ روپے سے بہاولپور سے حاصل پور تک 77 کلومیٹر کی dual دو ریہ کیرج وے کی تعمیر شامل ہیں۔

صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ بڑے شہر کسی بھی معیشت کے لئے انجن آف گروتھ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حکومت نے آئندہ مالی سال کے دوران راولپنڈی‘ ملتان اور فیصل آباد سمیت صوبے کے مختلف شہروں کو جدید سہولیات اورانفراسٹر اکچر سے آراستہ کرنے کے لئے سولہ ارب چھپن کروڑ روپے کی رقم مختص کی ہے۔ہماری آبادی کا نصف سے زیادہ حصہ خواتین پر مشتمل ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی معاشرہ خواتین کی شمولیت کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا۔ اگلے مالی سال میں قومی تعمیر نو کے مختلف شعبوں میں خواتین کی فلاح و بہبود پر ترقیاتی بجٹ سے مجموعی طور پر بتیس ارب سولہ کروڑ روپے صرف کئے جارہے ہیں۔ سرکاری ملازمتوں میں خواتین کے لئے پندرہ فیصد کوٹہ اور عمر کی حد میں تین سال کی رعایت اور ملازمت پیشہ خواتین کے لئے ڈے کیئر سنٹرز اور ہوسٹلوں کا قیام۔

ہماری حکومت کی اسی پالیسی کی آئینہ دار ہیں۔صوبائی وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا کہ آج کے دورمیں گڈ گورننس کے مقاصد کے حصول کے لئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہو چکی ہے۔ چنانچہ صوبے میں مختلف سرکاری محکموں کی کارکردگی کو بہتر کرنے اور ان کی مانیٹرنگ کے نظام کو موثر بنانے کے لئے سمارٹ گورننس کے نظام کے تحت انفارمیشن ٹیکنالوجی کو بھرپور طور پر استعمال کیا جارہا ہے‘ جس کی تحسین ورلڈ بنک جیسے عالمی ادارے نے بھی کی ہے۔

صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ میں مختصر الفاظ میں حکومت پنجاب کی ان کوششوں کا ذکر کرنا چاہوں گی جو اس نے پنجاب کے عوام کو محکمہ مال کے صدیوں پرانے اور فرسودہ استحصالی نظام سے نجات دلانے کے لئے کئے ہیں۔ مختلف مشکلات کے باوجود پنجاب کی تمام تحصیلوں میں کمپیوٹر ائزیشن لینڈ ریکارڈ کے عمل کو جون 2015ء تک مکمل کرلیا جائے گا۔ اس پروگرام کے تحت اب تک زمینوں کے ساڑھے پانچ کروڑ اندراج اور بائیس ہزار پانچ سو موضع جات کا اراضی ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کیا جاچکا ہے۔

اس وقت صوبے بھر کے ڈیڑھ لاکھ مالکان اراضی ماہانہ اس تبدیلی نظام سے استفادہ کر رہے ہیں۔عوام کی فلاح و بہبود کے لئے تیار کئے گئے منصوبوں کی تکمیل وسائل کی فراہمی سے مشروط ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں عوام کی مالی مشکلات اور مسائل کا بھی احساس ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ محاصل میں اضافے کے لئے موجودہ ٹیکسوں کی وصولی کے نظام میں خامیوں کو دور کیا جائے اور ان لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے جو ٹیکس ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

صوبائی وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقریر میں کہاکہ پنجاب حکومت نے چھوٹے کاروبار کو سیلز ٹیکس میں ریلیف دینے کے لئے ایک درجن کے قریب سیکٹرز میں مقررہ مدت کے لئے ری ڈیوس ریٹ سکیم رائج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سکیم کے اطلاق پر سولہ فیصد کی بجائے دو فیصد سے لے کر دس فیصد تک فلیٹ ریٹ سیلز ٹیکس لاگو ہو گا۔ پنجاب ریونیو اتھارٹی نے محصولات کو بہتر اور شفاف بنانے کے لئے ریسٹورنٹ سیکٹر میں ریسٹورنٹ انوائس مانیٹرنگ سسٹم کے اجراء کا فیصلہ بھی کیا ہے۔

اس کے علاوہ پنجاب کے طول و عرض میں ٹیکس پئرز کی سہولت کے لئے پنجاب ریونیو اتھارٹی نے راولپنڈی‘ گوجرانوالہ‘ملتان اور فیصل آباد میں کمشنریٹ قائم کئے ہیں۔صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ دوران سال 2014-15ء میں بہتر حکمت عملی اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے محاصل کی وصولی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ٹیکس پیئرکی سہولت کے لئے تمام ڈویژنل اور ڈسٹرکٹ دفاتر میں خصوصی مراکز قائم کئے گئے ہیں۔

صوبائی وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں مزید کہا کہ حکومت پنجاب قومی یکجہتی اور صوبائی ہم آہنگی پر پختہ یقین رکھتی ہے۔اسی جذبہ کے تحت اگلے مالی سال 2015-16ء میں صوبہ بلوچستان کے عوام سے خیر سگالی کے طورپر دو ارب روپے سے زائد مختص کئے جانے کی تجویز ہے۔ اس رقم سے کوئٹہ میں ایک ارب روپے کی لاگت سے دل کے امراض کے ہسپتال کی تعمیر کا آغاز کیا جارہا ہے۔

اسی طرح قومی یکجہتی اور صوبائی ہم آہنگی کے جذبے کے تحت صحت اور تعلیم سے متعلق مختلف پروگراموں میں سندھ اور خیبر پختوانخواہ کے عوام کی شمولیت کو بھی یقینی بنایا گیا ہے۔صوبائی وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقریر میں بایا کہ حکومت نے صوبے بھر کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنوں میں 7.5 فیصد اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی طرح حکومت نے سرکاری ملازمین کو 2011ء اور 2012ء میں ملنے والے ایڈہاک ریلیف الاؤنسز کو ان کی بنیادی تنخواہوں میں ضم کرنے اور ان کے میڈیکل الاؤنس میں 25 فیصد اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

میڈیکل الاؤنس میں یہ اضافہ پنشنرز کو بھی حاصل ہو گا۔ حکومت نے نجی شعبہ میں کام کرنے والے محنت کشوں اور کارکنوں کی کم از کم اجرات بارہ ہزار روپے سے بڑھا کر تیرہ ہزار روپے ماہانہ کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔صوبائی وزیر خزانہ نے مجھے خوشی ہے کہ ہماری حکومت کا بجٹ ایک عوام دوست‘ متوازن اور ترقیاتی بجٹ ہے۔ میں اپنی تقریر ختم کرنے سے پہلے کابینہ کے ارکان‘ اراکین اسمبلی‘ محکمہ خزانہ اور محکمہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے افسران‘ ماتحت عملہ اور اپنے سٹاف کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں جنہوں نے اس بجٹ کی تیاری میں شب و روز انتھک محنت کی۔

مجھے پنجاب کے ترقیاتی عمل میں تعاون پر عالمی اداروں ورلڈ بنک‘ ایشین ڈویلپمنٹ بنک اور ڈی ایف آئی ڈی کا بھی شکریہ ادا کرنا ہے۔ میں اپنی تقریر کا اختتام پنجاب کے عوام خصوصاً پسماندہ علاقوں اور محروم طبقات سے تعلق رکھنے والے ہر فرد کے لئے اس خواہش اور دعا کے ساتھ کرنا چاہوں گی کہ امن ملے ترے بچوں کو اور انصاف ملے۔۔۔چاندی جی

متعلقہ عنوان :