پاکستان کو گزشتہ سال کی نسبت شدید قحط کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ‘ماہرین

پیر 15 جون 2015 14:10

پاکستان کو گزشتہ سال کی نسبت شدید قحط کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 15 جون۔2015ء) موسمیات کے بین الاقوامی ماہرین نے پیش گوئی کی ہے کہ پاکستان کو گزشتہ سال کی بہ نسبت شدید قحط کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ساوٴتھ ایشین موسمیاتی فورم (ایس اے ایس سی او ایف) کی جانب سے اس خطے میں موسمیاتی تبدیلی کے سالانہ مطالعے کے بعد پیش کی جانے والی رپورٹ میں یہ پیش گوئی کی گئی ہے جس نے ملکی ماہرین کو پریشان کردیا ہے۔

پاکستان محکمہ موسمیات کے سربراہ ڈاکٹر غلام رسول نے بتایا کہ ہمیں ملک کے جنوب میں نصف حصوں میں کم بارشوں کی توقع تھی، جس نے پہلے ہی قحط جیسی صورتحال نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے انہوں نے مطالعہ کے کچھ حصوں سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ چولستان، تھرپارکر اور بلوچستان کے کچھ حصوں میں صورتحال بدترین ہونے کا امکان ہے۔

(جاری ہے)

عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) کی ایک علاقائی شاخ کے طور پر ساوٴتھ ایشین موسمیاتی فورم جنوبی ایشیائی ملکوں میں مون سون کی پیش گوئی اور موسمیاتی ضروریات کی نگرانی کرتا ہے۔

اس نے خبردار کیا کہ موسم گرما میں مون سون کی کمی اس خطے میں زراعت کی بنیاد پر قائم معیشت پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔فورم کے موسمیاتی ماہرین کے مطابق جنوبی ایشیا کے جنوب مغربی، وسطی، مغربی علاقوں میں معمول سے کم بارشوں کا امکان ہے۔پاکستان کے محکمہ موسمیات کے سربراہ نے بتایا کہ ہم پاکستان میں بہت کم بارشیں دیکھ رہے ہیں جو تقریباً 20 سے 25 ملی میٹر تک ہوسکتی ہیں جو اس شدید قحط کی سی صورتحال میں ایک مدد معلوم ہوتی ہے تاہم یہ مدد بھی پائیدار ثابت نہیں ہوگی اس لیے کہ یہاں گرمی کی شدت کی وجہ سے بخارات بننے کی شرح 10 ملی میٹر روزانہ ہے۔

اگرچہ ساوٴتھ ایشین موسمیاتی فورم کے مطالعے میں بتایا گیا کہ ملک کے شمالی حصوں میں ”معمول“ کے مطابق بارشیں ہوں گی تاہم اس سے ماہرین موسمیات کی پریشانی میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر، بالائی پنجاب اور خیبرپختونخوا میں شدید بارشوں سے سیلاب کا امکان پیدا ہوگا، پچھلے سال اس طرح کا تجربہ ہوچکا ہے درحقیقت ناقص پیش گوئیوں میں امیدیں پوشیدہ ہوتی ہیں۔

ایک ماہر کے مطابق ”موسموں کی 100 فیصد پیش گوئی کرنا ممکن نہیں۔ یہ اب بھی بہت بڑا چیلنج ہے، جسے دنیا بھر میں تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے موسمیاتی پیٹرن نے مزید مشکل بنادیا ہے۔“انہوں نے کہاکہ یہی وجہ ہے کہ بعد میں ان پیش گوئیوں کی بڑی تعداد مختلف ثابت ہوتی ہیں۔ صرف سات سے دس دنوں کی درمیانے درجے کی پیش گوئی کافی حد تک درست ثابت ہوتی ہے۔

ڈاکٹر غلام رسول نے یاد دلایا کہ بلاشبہ گزشتہ سال ستمبر کے مہینے میں معمول کی بارشوں کے مقابلے میں شدید بارشیں ہوئی تھیں، اگرچہ اس فورم نے اس کے بالکل برعکس پیش گوئی کی تھی۔پھر بھی محکمہ موسمیات کے سربراہ نے کسان برادری بالخصوص چاول کے کاشتکاروں کو خبردار کیا ہے ماہرین کو جلد ہی پاکستان کے موسم کی پیش گوئی کو حتمی صورت دینے کے لیے 8 موسمیاتی مراکز سے اکھٹا کیے گئے اعداد و شمار موصول ہوجائیں گے۔ڈاکٹر غلام رسول نے کہا کہ اسی دوران ہم شیخوپورہ، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کی طرح کے چاول کی کاشتکاری کے خطوں کے بارے میں بھی فکرمند ہیں، اس لیے کہ ان علاقوں میں کم بارشیں ہوں گی۔ کاشتکاروں کو کھیتوں کی آبپاشی کرنا ایک مشکل کام ہوگا۔

متعلقہ عنوان :