کراچی میں گرمی سے اموات کا الزام وفاق پر لگایا جارہا ہے ‘ سابق حکومت کی مجرمانہ غفلت کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے ‘ خواجہ آصف

بدھ 24 جون 2015 13:49

کراچی میں گرمی سے اموات کا الزام وفاق پر لگایا جارہا ہے ‘ سابق حکومت ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 24 جون۔2015ء) وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ کراچی میں گرمی سے اموات کا الزام وفاقی حکومت پر لگایا جارہا ہے ‘ سابق حکومت کی مجرمانہ غفلت کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے ‘3فیڈرز میں 55فیصد،40فیصد اور 42فیصد بجلی کی چوری ہے ‘کراچی میں پانی کی کمی کی ذمے داری وفاقی حکومت کی نہیں ‘کے الیکٹرک پر 57ارب روپے کے بقایا جات ہیں ‘ ادارے نے این ٹی دی سی کو 32ارب،پی ایس او کو 3ارب،سوئی سدرن کو 26ارب روپے ادا کرنا ہیں ‘شہروں میں5 ‘ دیہاتوں میں8 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے ‘ 2017ء تک سسٹم میں 4692 میگاواٹ بجلی مزید شامل ہوگی ‘ 2018ء کے آخر تک 5742 میگاواٹ سسٹم میں شامل ہو جائے گی ‘ایل این جی کے ذریعے 3600 میگاواٹ بجلی اس کے علاوہ 2018ء تک 14 ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی سسٹم میں شامل ہو جائیگی ‘ اصل حالات ایوان کو نہ بتائے تو ناانصافی ہوگی، کراچی میں اموات پر افسوس ہے، وفاقی حکومت ہر مدد کیلئے حاضر ہے ‘سیالکوٹ کے کینٹ فیڈر میں چوری ہوتی ہے تو خواجہ آصف کو روکنا چاہیے ‘، میرا ملک اتنا کمزور نہیں ہے دو تقاریر سے دراڑیں پڑ جائیں، حکومتیں آتی جاتی رہیں گی، ملک اور آئین قائم و دائم رہے گا ‘ قائد حزب اختلاف سندھ حکومت کی گورننس کا ملبہ ہم پر نہ ڈالیں ۔

(جاری ہے)

بدھ کو قومی اسمبلی میں وزیر پانی وبجلی خواجہ آصف نے اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ یکم رمضان سے بجلی کا بحران شروع ہا، جس کی وجہ سے ملک کے طول و عرض میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 15 سال کے دوران حکومتوں کی مجرمانہ غفلت سے قوم خمیازہ بھگت رہی ہے، یہ بحران گزشتہ دو سال سے شروع نہیں ہوا، 7 جون 2013ء کو ہم نے حکومت سنبھالی، جولائی میں رمضان کا آغاز ہوا، اس وقت بھی بحران تھا۔

2014ء میں ایک بریک ڈاؤن ہوا مگر 2014ء کا رمضان بخیر و خوبی گزر گیا، ہمارے دور کا یہ تیسرا رمضان ہے۔ 2012ء میں اوسط پیداوار 10122 میگا واٹ، طلب 13578 میگا واٹ اور لوڈ شیڈنگ 3456 میگا واٹ رہی۔ 2013ء میں پیداوار 13426 میگا واٹ، طلب 19692 میگا واٹ ہو گئی اور لوڈ شیڈنگ 6429 میگاواٹ رہی۔ 2014ء میں پیداوار 14186، طلب 21186 اور لوڈ شیڈنگ 7 ہزار میگا واٹ رہی۔ 2012ء سے اب تک سسٹم میں بجلی صرف نظام کو بہتر بنا کر شامل کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ 2015ء میں 13715 اور طلب 18000 رہی، شہروں میں لوڈ شیڈنگ 5 گھنٹے، دیہی علاقوں میں 8 گھنٹے اور صنعتوں کیلئے بھی 8 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں سمندر سے ہوائیں نہیں آ رہیں، جس کی وجہ سے شدید گرمی ہے، ہم کراچی کو 650 میگا واٹ بجلی دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں اب تک ہم نے 389 گیگا واٹ زیادہ بجلی پیدا کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج صبح 9 بجے بجلی کی پیداوار 13144 اور طلب تقریباً 16 ہزار کے قریب تھی، فرق تقریباً 3 ہزار میگا واٹ تھا۔

گیپکو میں 92 فیصد، آئیسکو 89.2 فیصد، لیسکو کی 98.2 فیصد ریکوریاں رہیں۔ راولپنڈی اسلام آباد کی کچی بستیوں میں بجلی زیادہ چوری ہوتی ہے۔ گزشتہ دنوں بجلی چوروں کے خلاف ہمارے آپریشن کے دوران دو اہلکار شہید ہوئے، مرتکب افراد افغانستان بیٹھے ہیں۔

کیسکو میں بجلی کی ریکوری 33 فیصد، پشاور 87.3 فیصد، حیسکو 76 فیصد اور سیبکو میں 57.8 فیصد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران سندھ، پنجاب، خیبرپختونخوا میں بجلی دینے کے قابل ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں 761 کلو میٹر، 90 کلو میٹر ٹرانسمیشن لائنیں بچھائی گئیں، دو گرڈ سٹیشن تعمیر کئے گئے ہیں، اس کے علاوہ بھی انفراسٹرکچر کی تعمیر کا کام جاری ہے، پرانے گرڈ سٹیشنوں کو اپ گریڈ کیا جا رہا ہے ہزاروں ٹرانسفارمر صارفین کی سہولت کیلئے فراہم کئے گئے۔

کے پی کے میں ٹرانسفارمر مرمت کرنے کی ورکشاپس نئی بنائی گئیں، ایک ہزار کلو میٹر سے زیادہ ٹرانسمیشن لائنیں بچھائی جا رہی ہیں، چکدرہ میں گرڈ سٹیشن کی تعمیر کیلئے سوا سال پہلے ہم نے سوا کروڑ روپے جمع کرا رکھے ہیں مگر تاحال زمین فراہم نہیں کی گئی۔ انفراسٹرکچر کی تعمیر سے صورتحال بہتر ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اُچھ سے جعفر آباد ٹرانسمیشن لائن سے بلوچستان میں صورتحال بہتر ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ نندی پور پاور منصوبہ دسمبر میں ایل این جی کی فراہمی کے بعد 500 میگاواٹ بجلی پیدا کرنا شروع کر دیگا اس کے علاوہ انہوں نے قائداعظم سولر پارک فاؤنڈیشن ونڈ جنریشن، چشمہ پاور پلانٹ کے جاری منصوبوں کی بھی تفصیلات بتائیں۔ 2016-17ء میں 969 میگاواٹ نیلم جہلم منصوبہ مکمل ہوگا، تربیلا فورتھ ایکسٹینشن سے 1410 میگاواٹ، قائداعظم سولر پارک سے 600 میگا واٹ مزید بجلی آئے گی۔

انہوں نے کہا کہ 2017ء تک سسٹم میں 4692 میگاواٹ بجلی مزید شامل ہوگی۔ 2018ء کے آخر تک 5742 میگاواٹ سسٹم میں شامل ہو جائے گی۔ ایل این جی کے ذریعے 3600 میگاواٹ بجلی، اس کے علاوہ 2018ء تک 14 ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی سسٹم میں شامل ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ نیلم جہلم منصوبہ 1980ء سے شروع تھا، سکی کناری منصوبہ آٹھ سال قبل شروع ہوا، اس کے علاوہ کئی منصوبے التواء کا شکار رہے ہیں، ہم انہیں مکمل کر رہے ہیں۔

ایل این جی سستا ایندھن ہے، اس کے ذریعے ٹیرف کو بہتر بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کی صورتحال کا الزام وفاقی حکومت پر لگایا جا رہا ہے، اس سے پہلے تھر میں سینکڑوں بچوں کی اموات ہوئیں، کراچی میں 6 سات دنوں سے شدید گرمی پڑ رہی ہے، وہاں پر پانی کی قلت وفاقی حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے، صورتحال واقعی افسوسناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ قطر کے ساتھ ایل این جی معاہدہ نہیں ہوا، ایل این جی سپاٹ سے خریداری کی جا رہی ہے ایشیاء کے کسی ملک کو اس سے کم قیمت پر ایل این جی نہیں مل رہی۔

انہوں نے کہا کہ ایم ایف او سے 20 فیصد اور ایل ایف او ایندھن سے 30 فیصد اور ڈیزل سے 50 فیصد سستی بجلی پیدا ہوگی، اس سے ہمیں سالانہ 100 ارب روپے کا فائدہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ الیکٹرک کی پیداواری صلاحیت 2419 تھی، اب یہ صلاحیت 2093 ہو گئی ہے، وفاقی حکومت ان کو 650 میگا واٹ بجلی دے رہی ہے، آئی پی پیز انہیں 363 میگاواٹ دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کے الیکٹرک ہم سے 650 میگا واٹ بجلی نہ بھی لے تو وہ اس فرق کو پورا کر سکتے ہیں مگر وہ ہم سے سستی بجلی لے کر منافع کما رہے ہیں حالانکہ وہ خود بھی یہ بجلی پیدا کر سکتے ہیں، اس صورتحال کے بعد بھی کوئی وفاقی حکومت کو مورد الزام ٹھہراتا ہے تو زیادتی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ کراچی الیکٹرک نے پی ایس او، ایس ٹی ڈی سی اور سوئی سدرن کے 57 ارب روپے دینے ہیں۔ کے الیکٹرک سپلائی کمپنی کے مسائل کے حوالے سے ہمیں مورد الزام ٹھہرانا افسوسناک ہے، ہم سالانہ کے الیکٹرک کو ایندھن کی قیمتوں کے فرق کی مد میں 30 ارب روپے ادا کرتے ہیں۔ 2008ء میں یہ معاہدہ کیا گیا اور کن کن لوگوں کے مفادات اس سے وابستہ تھے بحث کے آخر میں بتا دوں گا۔

انہوں نے کہا کہ کے پی کے کی صوبائی حکومت نے بعض مسائل کی نشاندہی کی تھی، ہم پاور بھی گئے، بعض مسائل حل ہوئے اور بعض مسائل کے حوالے سے مبالغہ آرائی بھی کی جا رہی ہے، ان علاقوں میں جنڈ کے فیڈرز پر 70 سے 90 فیصد تک چوری ہوتی ہے ہم وہاں پر بجلی نہیں دیتے مگر افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ ان علاقوں میں جو لوگ بل دیتے ہیں ان کو بھی مسائل کا سامنا ہے۔

پیسکو کے 230 فیڈرز میں 95 فیصد نقصانات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلی پرویز خٹک جس علاقے میں رہتے ہیں وہاں 57 فیصد چوری ہوتی ہے، سراج الحق کے حلقہ کے تین فیرز ہیں 55.40 اور 41.50 فیصد بجلی چوری ہوتی ہے۔ ارکان کو چاہیے کہ اپنے اپنے حلقوں کے عوام سے بھی کہیں وہ بل ادا کریں۔ وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف نے کہا کہ مجھے تو بجلی پر تقریر کرنے کا کہا گیا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پہلے میں پالیسی بیان دوں۔ انہوں نے کہا کہ تھر اور کراچی سمیت جہاں بھی اموات وہئی ہیں ہمیں اس پر افسوس ہے، میں تو بجلی کے بحران پر بات کر رہا ہوں، اگر اصل حالات ایوان کو نہ بتائے تو ناانصافی ہوگی، کراچی میں اموات پر افسوس ہے، وفاقی حکومت ہر مدد کیلئے حاضر ہے، بجلی پر بات نہیں کرنی تو میں بیٹھ جاتا ہوں، میں نے حکومت کا دفاع کرنا ہے، مجھے بولنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

انہوں نے کہا کہ اگر سیالکوٹ کے کینٹ فیڈر میں چوری ہوتی ہے تو خواجہ آصف کو روکنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اربن سکھر فیڈر سے 57 فیصد نقصان ہو رہا ہے۔ انہوں نے سندھ کے مختلف فیڈرز سے ہونے والے نقصانات کی تفصیلات بتائیں۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کے فیڈرز سے 15 سے 16 فیصد نقصانات ہیں۔ خیبرپختونخوا کے 238 فیڈرز پر 95 فیصد نقصانات ہیں، ملک کے بجلی کے صارفین بل ادا کریں تو گردشی قرضہ نہیں پیدا ہوگا۔

انوہں نے کہا کہ اکتوبر سے لیکر 30 شعبان تک صنعتوں کو زیرو لوڈشیڈنگ تک لائے، کسی نے ستائش نہیں کی، سحر و افطار کے اوقات میں بجلی پوری کر کے وزیراعظم کا وعدہ پورا کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزارت سنبھالتے وقت میں نے یا وزیراعظم محمد نواز شریف نے وعدہ نہیں کیا تھا کہ 6 ماہ میں بجلی پوری کر دیں گے، میں نے 55 ارب روپے سندھ حکومت سے لینا ہے، حساب ملایا گیا، جس میں 22 ارب روپے سندھ حکومت نے تسلیم کر لئے ہیں۔

سندھ حکومت نے 2.4 ارب روپے ادائیگی کرنی ہے، ہمیں کہا جا رہا ہے کہ یہ رقم چھوٹے چھوٹے کیپٹو پاور پلانٹ کو ادا کر دی جائیں، میں نے وفاقی حکومت کا دفاع کرنا ہے، میری زبان بندی نہ کی جائے، میرا ملک اتنا کمزور نہیں ہے کہ دو تقاریر سے دراڑیں پڑ جائیں، حکومتیں آتی جاتی رہیں گی، ملک اور آئین قائم و دائم رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ قائد حزب اختلاف سندھ حکومت کی گورننس کا ملبہ ہم پر نہ ڈالیں خواجہ آصف نے سوال کیا کہ تھر میں سیکڑوں بچوں کی اموات ہوئیں، کیا اس کی ذمہ داری بھی وفاقی حکومت پر ڈالی جائے گی؟

متعلقہ عنوان :