بجٹ میں 253 ارب کے نئے ٹیکس عائد کرنے پر دوبارہ غور کیا جائے، تین کھرب کی آمدنی کیلئے منی بجٹوں ، ریفنڈ روکنے اور ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کی جائے گی،تیل کی کم قیمت کے باوجود بجلی اور گیس کے ٹیرف میں اضافہ کا فیصلہ اسی سلسلہ کی کڑی ہے،ٹیکس کے طور پر ادا کئے جانے والے ہر 100 روپے میں سے 62کرپشن کی نزر ہو جاتے ہیں

پاکستان اکانومی واچ کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل کا بیان

اتوار 28 جون 2015 16:31

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 28 جون۔2015ء) پاکستان اکانومی واچ کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا ہے بجٹ میں 253 ارب کے نئے ٹیکس عائد کرنے پر دوبارہ غور کیا جائے کیونکہ اس سے کاروباری سرگرمیوں پر منفی اثرپڑے گا۔صرف ان سبسڈیز میں کمی کی جائے جس سے عام آدمی متاثر نہ ہو۔معاشی سرگرمیاں جاری رکھنے کیلئے ایف بی آر کے ہدف میں کم از کم پانچ سو ارب کی کمی کی جائے کیونکہ یہ ادارہ اصلاحات نہ ہونے کی وجہ سے اپنا ہدف حاصل کرنے کیلئے موجودہ ٹیکس گزاروں پر بوجھ بڑھانے پر مجبور ہو گا ۔

گزشتہ سال ایف بی آر کو 2890 ارب روپے جمع کرنے کا ہدف دیا گیا تھا جسے تین بار کم کر کے 2605 ارب کیا گیا مگر ناکامی کے باوجود اسے بجٹ میں 3104 ارب کا ٹارگٹ دیا گیا ہے جسے منی بجٹوں اور ریفنڈ روکے بغیر پورا کرنا ناممکن ہو گا جس سے عوام ،کاروباری برادری اور ملکی معیشت متاثر ہو گی۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی کے باوجود بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کا فیصلہ منی بجٹس کے سلسلہ کی کڑی ہے۔

اسکے علاوہ ماضی کی طرح ترقیاتی بجٹ میں بھی کٹوتی کی جائے گی کیونکہ اسے روکنے کا کوئی قانون موجود ہی نہیں ہے۔سات سال سے ہر بجٹ میں شرح نمو میں اضافہ کے بجائے مالیاتی استحکام پر زور دیا جا رہا ہے جس نے معیشت کو نقصان پہنچایا ہے۔جب کاروباری سرگرمیوں بشمول برامدات، مینوفیکچرنگ اور زراعت وغیرہ میں اضافہ ہی نہیں ہوا تو محاصل جمع کرنے کے ہدف میں پانچ سو ارب سے زیادہ کا اضافہ کرنے کا کیا جواز ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق ٹیکس کے طور پر ادا کئے جانے والے ہر سو روپے میں سے 62 کرپشن کی نظر ہو جاتے ہیں جسے روکا جائے تو 600 ارب کے ٹیکس جمع ہو سکتے ہیں۔ ایف بی آر میں حقیقی اصلاحات نہ ہونے تک اضافی ٹیکس جمع کیا جا سکے گا نہ ہی ٹیکس گزاروں کی خون پسینے کی کمائی کا زیاں رکے گا جبکہ ملک محتاج ہی رہے گا۔

متعلقہ عنوان :