بدعنوانی اورکمزورحکمرانی کی وجہ سے ہمیں اقوام عالم کے سامنے بہت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ، عوام کا قومی اداروں پر ہی نہیں ، ریاست پر اعتماد متزلزل ہوا ، اعلیٰ مناصب ایسے لوگوں کے ہاتھ میں چلے گئے جن کی توجہ نہ اچھی حکمرانی پر تھی اور نہ انھوں نے بدعنوانی کی بیخ کنی کو ضروری سمجھا،اگر ایسا نہ ہوتا اور عوامی مسائل کے حل اور کاروباری ماحول کی بہتری کو ترجیح دی جاتی تو اس کے نتیجے میں ہمارے بیشتر مسائل حل ہوجاتے

صدر مملکت ممنون حسین کااحتساب اور بہترطرز حکمرانی کے موضوع پر سیمینار سے خطاب

پیر 29 جون 2015 14:38

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 29 جون۔2015ء ) صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کے لئے ملوث عناصر کو عبرتناک سزا دی جانی چاہئیے ، بدعنوانی اورکمزورحکمرانی کی وجہ سے ہمیں اقوام عالم کے سامنے بہت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ، عوام کا قومی اداروں پر ہی نہیں بلکہ ریاست پربھی اعتماد متزلزل ہوا ، اعلیٰ مناصب ایسے لوگوں کے ہاتھ میں چلے گئے جن کی توجہ نہ اچھی حکمرانی پر تھی اور نہ انھوں نے بدعنوانی کی بیخ کنی کو ضروری سمجھا،اگر ایسا نہ ہوتا اور عوامی مسائل کے حل اور کاروباری ماحول کی بہتری کو ترجیح دی جاتی تو اس کے نتیجے میں ہمارے بیشتر مسائل حل ہوجاتے۔

احتساب اور بہترطرز حکمرانی کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے صدر ممنون حسین نے کہا کہ اس سیمینار میں آپ کی شرکت اور اِس میں زیربحث امور میں آپ کی دلچسپی ظاہر کرتی ہے کہ وطنِ عزیز میں احتساب اور اچھی حکمرانی قومی ترجیحات میں شامل ہے اور پاکستان کا ہر شہری ملک میں کرپشن اور بدعنوانی سے پاک اچھی حکمرانی کا خواہش مند ہے۔

(جاری ہے)

آج کا یہ سیمینار ظاہر کرتا ہے کہ ان عوامی خواہشات میں ریاست کے ادارے بھی شریک ہوچکے ہیں جو ایک اچھی اور حوصلہ افزا علامت ہے۔

عوام اور سرکاری ادارے جب کسی معاملے میں ہم خیال ہوجائیں توپھر ملک میں مثبت اور اچھی تبدیلیوں کا راستہ روکنا ممکن نہیں رہتا۔میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس سلسلے میں آنے والا کل ہمارے ماضی اور حال سے بہتر ہی نہیں بلکہ بہت بہتر ہوگا۔ان مقاصد کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ ہم اِن سازگار عوامل کو پیش نظر رکھتے ہوئے سیاسی، انتظامی اور عدالتی سطح پر اس عزم کو مضبوط بنائیں اور اس حوالے سے رائج عالمی معیارات پر عمل درآمد کویقینی بنادیں تاکہ عوام اور ہمارے ادارے عالمی برادری کے قدم کے ساتھ قدم ملا کر چل سکیں۔

اِس ضمن میں میرا ویژن یہ ہے کہ بدعنوانی جیسی معاشرتی برائی کا سدباب کرنے کے لیے مادی اور دنیوی عوامل کے ساتھ ساتھ انسان کی روحانی کیفیات پر بھی توجہ دینی چاہیے کیونکہ اِس گمبھیر مسئلے کی بنیاد صرف ناانصافی، معاشرتی ناہمواری اورہو سِ زر ہی نہیں بلکہ اس کی ایک اہم ترین وجہ دینی اور اخلاقی اقدار سے دوری بھی ہے۔اس طرح کی صورت حال میں ضروری ہے کہ انسان کی اخلاقی اور روحانی تربیت کے پہلو بھی پیش نظر رکھے جائیں ۔

اس فریضے کی ادا ئیگی میں خاندان کے علاوہ معاشرے میں اثرات رکھنے والے دیگر لوگ بھی اپنا کردار ادا کریں اوربدعنوان عناصر کو اُن کے طرز عمل کے نقصانات سے آگاہ کرکے اخلاقی دباوٴ کے ذریعے ان کی اصلاح کی کوشش کر یں۔یہ طریقہ ناکام ہو جائے تو پھر ریاست کو متحرک ہوجانا چاہئے جو مجرم کو سخت سزا دے کر نشانِ عبرت بنادے۔گزشتہ برسوں کے دوران بدعنوانی اورکمزورحکمرانی کی وجہ سے ہمیں اقوام عالم کے سامنے بہت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کے نتیجے میں عوام کا قومی اداروں پر ہی نہیں بلکہ ریاست پربھی اعتماد متزلزل ہوا ۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کے بعض اعلیٰ مناصب ایسے لوگوں کے ہاتھ میں چلے گئے جن کی توجہ نہ اچھی حکمرانی پر تھی اور نہ انھوں نے بدعنوانی کی بیخ کنی کو ضروری سمجھا۔اگر ایسا نہ ہوتا اور عوامی مسائل کے حل اور کاروباری ماحول کی بہتری کو ترجیح دی جاتی تو اس کے نتیجے میں ہمارے بیشتر مسائل حل ہوجاتے۔ خوشی ہے کہ بیوروکریسی میں اصلاحات کے لیے سفارشات کی تیاری کا کام پلاننگ کمیشن کے سپرد کیا گیا ۔

یہ ایک درست قدم ہے ۔ میں توقع کرتا ہوں کہ اس کے اچھے نتائج برآمد ہوں گے ۔یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ ہم سرکاری شعبے کی مینجمنٹ میں شفافیت کو فروغ دے کر حکومت کے اقدامات، فیصلوں اور پالیسیوں میں کُھلا پن پیدا کرسکیں۔اس کے نتیجے میں حکومت اور ریاست پر عوام کا اعتماد بحال ہوگا اور قومی امور کے بارے میں عوام اور حکومت کے درمیان کوئی خلا باقی نہیں رہے گا۔

آپ جانتے ہیں کہ کوئی معاشرہ اس وقت تک کامیابی کی منازل طے نہیں کرسکتا جب تک اس میں احتساب کو بنیادی قدر کی حیثیت حاصل نہ ہوجائے اور اس مقصد کا حصول اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک ریاستی اداروں کو قوم، اُس کے معاشرتی اداروں اور ذرائع ابلاغ کا تعاون حاصل نہ ہو۔میں یہ کہتے ہوئے دکھ محسوس کرتا ہوں کہ ہمارے سرکاری ادارے بے شمار وجوہات کے سبب عوامی اعتماد سے محروم ہیں اور لوگ ان کی کارکردگی کے بارے میں بہت سے تحفظات رکھتے ہیں ۔

عوامی اعتماد کی بحالی صرف اسی صورت میں ممکن ہے اگر احتساب اور اچھی حکمرانی کے فروغ کے ساتھ ساتھ سرکاری اداروں کی تنظیم نو کی جائے اور شفافیت کے ذریعے عوام کی اطلاعات تک رسائی کو یقینی بنایا جائے۔اس کے ضمن میں ناگزیر ہے کہ غیرضروری اور پیچیدہ قوانین کو منسوخ کرکے نئے اور موٴثر قوانین متعارف کرائے جائیں۔ سرکاری اداروں کے اندا زِکار میں تیزی لائی جائے اوراِن کے طریقہء کار میں جدت پیدا کی جائے ۔

اس سلسلے میں ہم دنیا کے مختلف ملکوں میں رائج قوانین سے بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں جن میں ہانگ کانک، سنگاپور، ملائشیا اور جنوبی کوریا جیسے ممالک شامل ہیں۔میں یہ بات بڑی شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ سرکاری خریداری کے نظام کو بین الاقوامی قوانین سے ہم آہنگ کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ پرانے اور فرسودہ طور طریقوں پر کاربند رہ کر ہم کوئی کامیابی حاصل نہ کرسکیں گے۔

اس سلسلے میں؛میں آپ کی توجہ بدعنوانی کے خلاف اقوم متحدہ کے کنونشن(UNCAC) کی طرف مبذول کرانا ضروری سمجھتا ہوں جسے اختیار کرکے ہم مختلف شعبوں میں بدعنوانی کے خلاف اپنی کارکردگی کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔ اس معاملے میں نجی شعبہ بھی اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔آپ جانتے ہیں کہ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں اچھی حکمرانی کے انداز بھی بدل گئے ہیں۔

اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی اور اخراجات میں خاطر خواہ کمی اِس کا ایک نمایاں پہلو ہے۔ اسی طرح وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اخراجات میں کمی اور ان کی کارکردگی میں اضافے کے لیے ہمیں E-Governmentاور Teleconferencingکے طریقے اختیا ر کرنے چاہئیں تاکہ کم وقت اور کم اخراجات کے ذریعے تیزی سے فیصلے کرکے عوام کے مسائل حل کیے جاسکیں۔وزیر اعظم معائنہ کمیشن نے بجلی کی کمی، اشیائے صرف کی قیمتوں کے تعین ، مارکیٹ میں طلب اور رسد کے مسائل ، پینے کے پانی کی فراہمی اور ماحولیات جیسے شعبوں میں قابل قدر کام کیا ہے

متعلقہ عنوان :