پاکستانی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے، معیشت کی ترقی کیلئے حکومت ملک میں ڈی ریگولیٹ پالیسی بنائے، ڈی ریگولیٹ پالیسی سے قومی خزانے پر بوجھ نہیں پڑے گا اور ریونیو میں اضافہ ہو گا، ملک میں نئی صنعتیں لگنے سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، چیف ایگزیکٹو آفیسرسپیل پرائیویٹ لمیٹڈ الماس حیدرکا خصوصی انٹرویو

بدھ 1 جولائی 2015 15:39

لاہور ۔یکم جولائی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ یکم جولائی۔2015ء) پاکستان کی معیشت درآمدات پر مبنی نہیں ہونا چاہئیے بلکہ اسے مینوفیکچرنگ اکانومی بنانے کی ضرورت ہے ۔معیشت کو ترقی دینے کیلئے ضروری ہے کہ حکومت ملک میں آزادانہ پالیسی بنائے ۔حکومت کو چاہئے کہ وہ بجلی،پٹرول،گیس،ایل این جی اور ایل پی جی کو ڈی ریگولیٹ کر دے جس سے ملک میں مقابلے کی فضا پیدا ہو گی۔

ڈیمانڈ اور سپلائی کے تناسب سے اشیاء کی قیمتیں متعین ہوں گی اور عوام کو معیاری اور سستی بجلی،گیس ،ایل این جی،ایل پی جی اور پٹرولیم مصنوعات ملیں گی ۔قومی خزانے پر بوجھ نہیں پڑے گا اور ریونیو میں اضافہ ہو گا اور ملک میں نئی صنعتیں لگنے سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ان خیالات کا اظہار سپیل پرائیویٹ لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر الماس حیدر نے ایکسپورٹ گائیڈکو دیئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کیا ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ سولر پینلز،لیپ ٹاپ،کمپیوٹر اور موبائل تیار کرنے کی فیکٹریاں ملک کے اندر لگائے جس سے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری آئے گی،بے روزگاری اور غربت میں کمی ہو گی اور ریونیو میں اضافہ ہو گا ۔الماس حید ر نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ چینی صدر کے دورہ پاکستان اور 46ارب ڈالر کے معاہدوں سے پاکستان کی تقدیر بدل جائے گی۔

پاک چین تعلقات مزید مستحکم ہوں گے اور ترقی کے نئے راستے کھلیں گے ۔حکومت کو چاہئے کہ وہ ان معاہدوں پر عمل درآمد کو یقینی بنائے ۔ اقتصادی راہداری اور موٹر وے کے اطراف میں بیرونی سرمایہ کاروں کے لئے صنعتی زون بنائے جائیں جہاں انہیں صنعتیں لگانے کیلئے دس سال کیلئے ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں میں چھوٹ دی جائے

اور یہی سہولت مقامی صنعتکاروں کو بھی دی جائے ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ پاکستانی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے اور وہ توقع رکھتے ہیں کہ جی ڈی پی کی شرح پانچ فیصد تک پہنچ جائے گی تاہم اگر حکومت چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتوں جن میں لائٹ انجینئرنگ اور آٹوموبیل سیکٹر بھی شامل ہے ان کی حوصلہ آفزائی کی جائے تو ملکی جی ڈی پی 8فیصد تک پہنچ سکتی ہے ۔ الماس حید ر نے بتایا کہ دنیا میں حلال مصنوعات کی مارکیٹ 3ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں حلال سرٹیفکیشن بورڈ موجود نہیں اگر حکومت یہ بورڈ قائم کر لے تو ہماری ایکسپورٹ میں اربوں روپے کا اضافہ ہو سکتا ہے اسی طرح دنیا سے سستی ترین لیبر ہمارے پاس موجود ہے جسے ہم تربیت دے کر پوری دنیا کو ایکسپورٹ کر سکتے ہیں لیکن مین پاور ایکسپورٹ کمپنیاں موجود نہیں ۔

پاکستان میں سب سے زیادہ ایکسپورٹ پوٹیشنل والا شعبہ لائٹ انجینئرنگ ہیں جو ہزاروں ایس ایم ایز پر مشتمل ہے اگر آپ اس شعبہ کو ترقی دے دیں تو نہ صرف بیروزگاری میں نمایاں کمی ہو گی بلکہ ملکی برآمدات میں بھی اضافہ ہو گا ۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ اس وقت ضرورت ہے کہ ہر شعبے کے ماہرین پر مشتمل تھنک ٹینک بنائے جائیں جس میں تمام شعبوں کی نمائندگی ہو اور حکومت اس تھنک ٹینک کی مشاورت سے اپنی اقتصادی و معاشی پالیسیاں مرتب کرے ۔حکومت نے بجلی کی پیداوار بڑھانے کیلئے مختلف منصوبے شروع کر رکھے ہیں جنہیں جلد از جلد مکمل کرنے کی ضرورت ہے ۔ایل این جی درآمد کرنے کا فیصلہ خوش آئند ہے لیکن اسے حکومت خود درآمد کرنے کی بجائے نجی شعبے کو درآمد کرنے کی اجازت دے