کرپشن کی روک تھام کیلئے مزید قانون سازی کی ضرورت ہے، کرپشن کی نشاندہی کرنے والوں کو تحفظ دینے کا بل وزیر اعظم کوبھجو دیا گیا ، کابینہ سے منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں پیش کر دیا جائیگا

سینیٹ قائمہ کمیٹی قانون و انصاف و انسانی حقوق کو سیکرٹری قانون جسٹس (ر) سردار رضا کی بریفنگ وفاقی ایجنسیاں کرپشن کی روک تھام کیلئے مزید سخت اقدامات اٹھائیں ،ایف آئی اے اور نیب میں اختیارات کا توازن قائم کیا جائے، چیئر مین نیب آئندہ اجلاس میں خود شرکت کرکے ادارے کی کارکردگی بارے تفصیلات سے آگاہ کریں، چیئرمین کمیٹی کی ہدایت

بدھ 1 جولائی 2015 18:29

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ یکم جولائی۔2015ء ) سینیٹ قائمہ کمیٹی قانون و انصاف و انسانی حقوق کو سیکریٹری قانون جسٹس (ر) سردار رضا نے آگاہ کیا کہ کرپشن کی روک تھام اور خاتمے کیلئے مزید قانون سازی کی ضرورت ہے، کرپشن کی نشاندہی کرنے والوں کو تحفظ دینے کا بل وزیر اعظم کوبھجو دیا گیا ہے ، بل کابینہ سے منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں پیش کر دیا جائیگا ، کے پی کے میں نیب نے کرپشن کی روک تھام کیلئے سخت قانون سازی کی ہے ۔

چیئر مین کمیٹی سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ وفاقی ایجنسیاں کرپشن کی روک تھام کیلئے اور زیادہ سخت اقدامات اٹھائیں اور کرپشن کرنے والے اداروں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کی جانی چاہیے ۔ ،ایف آئی اے اور نیب میں اختیارات کا توازن قائم کیا جائے ۔

(جاری ہے)

چیئر مین کمیٹی نے ہدایت دی کہ چیئر مین نیب آئندہ اجلاس میں مقدمات فیصلوں کارکردگی اور وصولیوں کے حوالے سے کمیٹی میں خود شرکت کر کے تفصیلات سے آگاہ کریں۔

بدھ کو چیئر مین سینیٹر محمد جاوید عباسی کی صدارت میں منعقد ہونیوالے سینیٹ قائمہ کمیٹی قانون و انصاف و انسانی حقوق کے اجلاس میں سرکاری اداروں میں کرپشن کے خاتمے اور لیگل پریکٹیشنر اینڈ بار کونسل رولز 1976کے علاوہ فیڈرل جوڈیشنل اکیڈمی کے ترمیمی بل سینیٹر خافظ حمد اﷲ کی طرف سے آئین کے آرٹیکل 248 اور آرٹیکل 37کے بلوں میں الفاظ کے خزف اور پیرا گراف میں ترمیم سینیٹر سعید غنی کی طرف سے پارلیمنٹ میں مزدوروں کی نمائندگی کے حوالے سے تفصیلی بحث ہوئی اور سیکریٹری قانون ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے لیگل ایڈوائزر نیب ، چیئر مین ایچ ای سی ، ڈی جی جوڈیشنل اکیڈمی سے بریفنگ لی گئی ۔

کمیٹی کے اجلاس میں چیئر مین سینیٹر محمد جاوید عباسی کی طرف سے سرکاری اداروں میں کرپشن میں کمی نیب اور ایف آئی اے کی طرف سے ایک ہی مقدمہ یا معاملے کی تحقیق و تفتیش اب تک ایف آئی اے اور نیب کی طرف سے کرپشن کے خاتمے کیلئے کئے گئے اقدامات مجرموں سے سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے پر مالیاتی وصولیوں پر سیکریٹری قانون جسٹس (ر) سردار رضا نے آگاہ کیا کہ کرپشن کی روک تھام اور خاتمے کیلئے مزید قانون سازی کی ضرورت ہے کرپشن کی نشاندہی کرنے والوں کو تحفظ دینے کا بل وزیر اعظم کو بجھوا دیا گیا ہے ۔

بل کابینہ سے منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں پیش کر دیا جائیگااور آگاہ کیا کہ کے پی کے میں نیب نے کرپشن کی روک تھام کیلئے سخت قانون سازی کی ہے ۔ چیئر مین کمیٹی سینیٹر محمد جاوید عباسی نے کہا کہ وفاقی ایجنسیاں کرپشن کی روک تھام کیلئے اور زیادہ سخت اقدامات اٹھائیں اور کرپشن کرنے والے اداروں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کی جانی چاہیے ۔

ایف آئی اے اور نیب میں اختیارات کا توازن قائم کیا جائے ۔ چیئر مین کمیٹی نے ہدایت دی کہ چیئر مین نیب آئندہ اجلاس میں مقدمات فیصلوں کارکردگی اور وصولیوں کے حوالے سے کمیٹی میں خود شرکت کر کے تفصیلات سے آگاہ کریں ۔ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے مقصود الحسن نے آگاہ کیا کہ ایف آئی اے میں اندرونی احتساب یونٹ قائم کردیا گیا ہے 94افسران کو سزا دی گئی ہے ایف آئی اے اور بیب کے درمیان کچھ معاملات پر اختلاف ہے سائبر کرائم کے خلاف اور جعلی ادویات پر سخت کاروائی کرتے ہوئے 71سے زائد مقدمات قائم کئے گئے اور انکشاف کیا کہ 2ہزار سے زیر التوا مقدمات کے فیصلے اب آ رہے ہیں ای او بی آئی او ر ٹڈیپ سے اربوں کی ریکوری کی گئی ہے 1408مجرموں کا چالان پیش کر کے سزائیں دلوائی گئی ہیں ۔

اس وقت بھی 1ہزار کے لگ بھگ مقدمات زیر التوا ہیں ۔نیب سے چار ہزار مقدمات واپس ہوئے جن پر عمل نہیں ہوا تھا کوئی بھی محکمہ یا زبانی یا تحریری طور پر کوئی بھی پاکستانی شہری ویب سائٹ اور آ ن لائن نظام کے ذریعے کرپشن کی شکایت کرے تو کاروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے ۔104شیڈولڈ جرائم پر ایف آئی کاروائی کا اختیار رکھی ہے ۔سینیٹر سعید غنی نے سوال اٹھایا کہ کیسے پتہ چلتا ہے کہ جس مقدمے کی تحقیقات ایف آئی اے بھی کر رہی ہو اس کی تحقیقات نیب بھی کر سکتی ہے اور کیا ایف آئی پابند ہے کہ وہ نیب کو بھی آگاہ کرے ۔

جسکے جواب میں نیب کے لیگل ایڈوائزر نے آگاہ کیا کہ عوامی مفاد میں نیب کی اتھارٹی بھی ایف آئی اے کے اٹھائے گئے معاملے پر انکوائری کر سیکتی ہے ۔ سینیٹر سعید غنی کے اس سوال پر کہ ایف آئی اے اور نیب نے اب تک کتنے مقدمات عدالتوں میں دیے ،کتنے فیصلے آئے جس پر چیئر مین کمیٹی نے ہدایت دی کہ دونوں اداروں کے تحقیقاتی مقدمات کی تفصیل آئندہ اجلاس میں پیش کی جائے ۔

نیب کی طرف سے صوابدیدی اختیارات کے تحت کسی بھی عدالت سے مقدمہ احتساب عدالت میں منگوانے کے حوالے سے بھی کمیٹی کے اجلاس میں تحفظات کا اظہا ر کیا گیا۔سینیٹر خافظ حمدا ﷲ نے کہا کہ مذہبی تہواروں میں شراب کے استعمال کی اجازت کے لفظ کو آئین سے حزف کیا جائے کسی بھی مذہب میں شراب نوشی کی اجازت نہیں ہے ۔جس پر کمیٹی میں فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ اجلاس میں اقلیتی ارکان کی رائے کے بعد فیصلہ کیا جائیگا۔

سینیٹر حمد اﷲ نے صدر اور گورنرز کو فوجداری مقدمات سے استثنی ٰ کو خلاف آئین و قرآن و سنت قرار دیا اور کہا کہ اسلام کی ایوان میں جب بھی بات آتی ہے تو سب کو الرجی شروع ہو جاتی ہے ۔سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام کے مولانا مفتی معمود مرحوم 1973ء کے آئین پر دستخط کرنے والوں میں شامل تھے ۔استثنیٰ شخصیت کے بجائے عہدوں کو حاصل ہے ۔

چیئر مین کمیٹی سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ صدر مملکت ، افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر وفاق کی ضمانت ہیں دوارن عہدہ گورنرزاور صدر مملکت آئینی ذمہ داریاں چھوڑ کر عدالتوں میں پیش ہوتے رہے ہیں اس وقت کی قیادت کا یہ ویژن تھاعہد ہ چھوڑنے کے بعد صدر اور گورنرز کے خلاف مقدمات کی سماعت ہوتی ہے دنیا بھر میں ان عہدوں کو استثنیٰ حاصل ہے ۔سیکریٹری قانون جسٹس ریٹائر سردار رضا نے کہا کہ قرآن و سنت کے خلاف معاملات کیلئے فیڈرل شریعت کورٹ ، اسلامی نظریاتی کونسل مجاز فورم ہیں اور مجوزہ ترمیمی بل بھی مبہم ہے ۔

سینیٹر عائشہ رضا فاروق نے کہا کہ کوئی قانون اور آئین سے بالا تر نہیں قانون سازوں نے عہدوں کو استثنیٰ دیا تھا صدر اور گورنرزمقدموں کو بھگتے رہیں تو اولین فر ض ادا کرنا مشکل ہو جائیگا۔سیکریٹری قانون نے کہا کہ بل واپس لے لیا جائے اور پورے آرٹیکل کو خزف کرنے کیلئے دوبارہ پیش کیا جائے جس پر چیئر مین کمیٹی نے کہا کہ مجوزہ ترمیم سے پنڈورہ بکس کھل جائیگا۔

سینیٹر حمد اﷲ نے بل واپس لینے سے انکار پر کمیٹی اراکین سینیٹر سعید غنی اور سینیٹر عائشہ رضا فاروق کی مخالفت کی وجہ سے بل نہ منظور ہو گیا۔ سینیٹر حمد اﷲ نے کمیٹی کے اجلا س میں واضح علان کیا کہ وہ نیب کو اور نیب کے قوانین کو نہیں مانتے یہ صرف سیاستدانوں کا منہ کالا کرنے کیلئے ہیں بلیک میلنگ کا ادارہ ہے ایک ارب کی کرپشن کرنے والے کو بیس کروڑ روپیہ لے کر رہا کر دیا جاتا ہے ۔

ادارہ اغواہ برائے تاوان کی شکل اختیار کر رہا ہے ۔کیا نیب نے کسی جنرل کے خلاف بھی کوئی مقدمہ درج کیا ہے ۔کمیٹی کے اجلاس میں جوڈیشنل اکیڈمی کو جوڈیشنل یونیورسٹی کا درجہ دینے کے حوالے سے ڈی جی جوڈیشنل اکیڈمی ، چیئر مین ایچ ای سی ، ڈی جی ایچ ای سی کی طرف سے دی گئی بریفنگ اور سیکریٹری قانون کی رائے کے بعد تمام سٹیک ہولڈرز کو باہمی مشاورت سے مثبت تجاویز کے ساتھ آئندہ اجلاس میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی گئی ۔

جوڈیشل اکیڈمی کو یونیورسٹی کا درجہ دینے اور ڈگریوں کے اجراء کے حوالے سے ڈی جی جوڈیشل اکیڈمی کی طرف سے سرکاری مدد اور عدالتی فیصلوں پر سینیٹر سعید غنی نے شدید تحفظا ت کا اظہار کیا اور کہا کہ کسی کی خواہش یا دباؤ پر اکیڈمی کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ یونیورسٹی کی شرائط مکمل کرنے کے بعد درجہ دینے پر اعتراض نہیں ۔

ڈی جی ایچ ای سی نے آگاہ کیا کہ ایچ ای سی نے 35ایکٹرز زمیں کی پیش کش کی ہے اور عمارات پر بھی کئی ملین خرچ آ چکا ہے اور این او سی بھی جاری کر دیا گیا ہے ۔سینیٹرعائشہ فاروق نے بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ این او سی دے دیا گیا تو عمل کیوں نہیں ہوا تیروہ سو ملین کے اخراجات سے منظوری کے بغیر عمارت کیوں بنی ۔کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف ہوا کہ یونیورسٹی بننے کے عمل میں رکاوٹ کی بنیادی وجہ یونیورسٹی کے چانسلر کا جھگڑا تھا تجویز میں چیف جسٹس یا صدر کو چانسلر بننا تھا اس لئے کے نسٹ اور این ڈی یو کے چانسلر ز چیف آف سٹاف ہیں تو چیف جسٹس کیوں نہیں ۔

سینیٹر سعید غنی اور سینیٹر عائشہ رضا فاروق کی تجویز کہ اکیڈمی کو یونیورسٹی بنانے کیلئے ورکنگ پیپر میں تبدیلیاں لا کر اس سے بہتر بنایا جائے جس پر کمیٹی نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ موجودہ ایکٹ کی موجودگی میں دوسری یونیورسٹی کا درجہ مشکل ہے ۔ اگلے اجلاس میں سیکریٹری قانون سے مشاورت کر کے تفصیلی اور جامع ورکنگ پیپر پیش کیا جائے ۔کمیٹی کے جلاس میں سیکریٹری وزارت قانون سردار رضا ، ڈی جی جوڈیشنل اکیڈمی فخر حیات ، چیئر مین ایچ ای سی منصور اے کنڈی ، اے ڈی جی ایف آئی مقصود الرحمان ، لیگل ایڈوائز ر نیب شمائل عزیز اور بار کونسلز کے بابر بلال اور محمد رشید ایڈوکیٹ نے شرکت کی ۔