جوڈیشل انکوائری کمیشن میں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے وکلا کے حتمی دلائل مکمل

کمیشن کی (ق) لیگ،ایم کیو ایم،بلوچستان نیشنل پارٹی(عوامی) کے وکلا کو(آج ) دلائل مکمل کرنے کی ہدایت (کل) زیادہ دیر تک بیٹھنا پڑا تو بیٹھیں گے، (پرسوں ) تک اپنی کارروائی مکمل کرلیں گے،چیف جسٹس کے ریمارکس تحریک انصاف انتخابات میں حصہ لینے والی نئی جماعت تھی، پیپلز پارٹی نے پورے پاکستان سے 15فیصد کے قریب نشستیں حاصل کیں، خیبرپختونخوا میں مسلم لیگ(ن) کو 8لاکھ ووٹ پڑے، تحریک انصاف نے کے پی کے میں 13لاکھ90ہزار ووٹ حاصل کئے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خیبرپختونخوا میں انتخابات شفاف ہوئے، تحریک انصاف کے پی کے میں اقتدار میں نہیں تھی، اے این پی کو انتخابات میں غیر یقینی شکست ہوئی، کون کہتا ہے کہ ایم کیو ایم کے حلقوں میں انتخابات شفاف ہیں، ایم کیو ایم کے حلقوں میں تو فارم 15 نہیں ملے، نجم سیٹھی نے کمیشن کے سامنے اقرار کیا کہ 25 اپریل کے بعد نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کے اختیارات محدود ہو گئے تھے‘ اگر وزیر اعلیٰ کے اختیارات محدود ہو گئے تو پنجاب حکومت کون چلا رہا تھا تحریک انصاف کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ کے جوڈیشل انکوائری کمیشن میں دلائل

بدھ 1 جولائی 2015 19:45

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ یکم جولائی۔2015ء) 2013ء کے عام انتخابات میں مبینہ انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کرنے والے جوڈیشل انکوائری کمیشن میں تحریک انصاف کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ اور پیپلز پارٹی کے وکیل اعتزاز احسن نے حتمی دلائل مکمل کرلئے،جوڈیشل انکوائری کمیشن نے (کل) جمعرات 11بجے تک (ق) لیگ کے وکیل خالد رانجھا، ایم کیو ایم کے بیرسٹر فروغ نسیم، بلوچستان نیشنل پارٹی(عوامی) کے وکیل کو دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کر دی،مسلم لیگ(ن) کے وکیل شاہد حامد بھی (کل اپنے دلائل مکمل کرلیں گے، چیف جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیئے کہ (آج) جمعرات کو زیادہ دیر تک بھی بیٹھنا پڑا تو بیٹھیں گے، جمعہ تک اپنی کارروائی مکمل کرلیں گے، جوڈیشل انکوائری کمیشن کا اجلاس (کل) دن ساڑھے 9 بجے تک کیلئے ملتوی کر دیا گیا۔

(جاری ہے)

بدھ کو چیف جسٹس، جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں3رکنی انکوائری کمیشن نے مبینہ انتخابی دھاندلیوں سے متعلق سماعت کی۔ سماعت کے دوران تحریک انصاف کے وکیل حفیظ پیرزادہ نے مسلسل تیسرے روز بھی اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے انہیں مکمل کیا، حفیظ پیرزادہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ تحریک انصاف انتخابات میں حصہ لینے والی نئی جماعت تھی، پیپلز پارٹی نے پورے پاکستان سے 15فیصد کے قریب نشستیں حاصل کیں، خیبرپختونخوا میں مسلم لیگ(ن) کو 8لاکھ ووٹ پڑے، تحریک انصاف نے کے پی کے میں 13لاکھ90ہزار ووٹ حاصل کئے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خیبرپختونخوا میں انتخابات شفاف ہوئے، تحریک انصاف کے پی کے میں اقتدار میں نہیں تھی، اے این پی کو 2013ء کے انتخابات میں غیر یقینی شکست ہوئی، اے این پی اس سے پہلے اقتدار میں تھی، کون کہتا ہے کہ ایم کیو ایم کے حلقوں میں انتخابات شفاف ہیں، وہاں ایم کیو ایم کے حلقوں میں تو فارم 15بھی نہیں ملے، حفیظ پیرزادہ نے کہا کہ نجم سیٹھی نے کمیشن کے سامنے اقرار کیا کہ 25 اپریل کے بعد نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کے اختیارات محدود ہو گئے تھے، اگر وزیر اعلیٰ کے اختیارات محدود ہو گئے تو پنجاب حکومت کون چلا رہا تھا، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ اے این پی 2008ء سے 2015ء کے دوران اقتدار میں تھی۔

چیف جسٹس، جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیئے کہ میں نے آپ سے پہلے بھی پوچھا اور دوبارہ بھی پوچھ رہا ہوں کہ آپ نے تحریری جواب میں مسلم لیگ (ن) کو دھاندلی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے، آپ بتائیں کہ (ن) لیگ نے دھاندلی کیسے کرائی، یا آپ (ن) لیگ کو دھاندلی سے کیسے منسلک کر رہے ہیں، جس پر حفیظ پیرزادہ نے کہا کہ میں چارٹ اور ٹیبلز کی مدد سے کمیشن کو بتاؤں گا کہ جتنے ووٹ (ن) لیگ کے 2013ء میں ہیں یہ 2008 کے انتخابات سے زیادہ ہیں، چیف جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے تمام دلائل کا مرکز مسلم لیگ(ن) ہے، آپ کے پاس مسلم لیگ (ن) کے خلاف دھاندلی ثابت کرنے کے کیا شواہد ہیں؟۔

حفیظ پیرزادہ نے کہا کہ تحریک انصاف نے پنجاب میں 76 لاکھ ووٹ حاصل کئے، مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں ایک کروڑ 10لاکھ ووٹ حاصل کئے جبکہ عام انتخابات میں ایک کروڑ 48لاکھ ووٹ حاصل کئے، یہ ووٹ 2008 کے انتخابات کے مقابلے میں دوگنا ہیں،مسلم لیگ (ن) نے باقی تین صوبوں سے جو ووٹ حاصل کئے وہ 20لاکھ بھی نہیں، مسلم لیگ (ن) نے سندھ میں 2008ء کی نسبت 2013ء میں کم ووٹ حاصل کئے،عام انتخابات میں نشستوں کے حصول کیلئے پنجاب کو محور بنایا گیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سندھ میں بھی تو پیپلز پارٹی نے دوبارہ حکومت بنائی، حفیظ پیرزادہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ یہ تاریخ بنانے کا موقع ہے، اعلیٰ سطح کا کمیشن پھر نہ بنے گا، ریاست جمہوری اداروں کو مضبوط بنائے بغیر قائم نہیں رہ سکتی، الیکشن کمشنر پنجاب کا بیان انتہائی اہم ہے، اس پر غور کیا جائے گا، ریٹرننگ افسران کو اضافی بیلٹ پیپرز مانگنے کا اختیار نہیں ہوتا، چیف جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیئے کہ اضافی بیلٹ پیپرز صرف پنجاب میں ہی نہیں بلکہ باقی صوبوں میں بھی مانگے گئے، پورے ملک میں ریٹرننگ افسران کے پاس اضافی بیلٹ پیپرز تھے۔

حفیظ پیرزادہ نے کہا کہ وفاقی وزراء کے حلقوں میں زیادہ بیلٹ پیپرز بھیجے گئے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن والے دن یہ لوگ وزیراعظم اور وفاقی وزراء نہیں تھی۔حفیظ پیرزادہ نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 7 مئی کو بیلٹ پیپرز کی تیاری کیلئے 200افراد لاہور سے اسلام آباد لائے گئے،90 فیصد اضافی بیلٹ پیپرز پنجاب میں استعمال ہوئے، اضافی بیلٹ پیپرز چھاپنے کا فیصلہ صوبائی الیکشن کمشنر نے کیا،ایک ریٹرننگ افسر نے 3فیصد جبکہ دوسرے نے 30فیصد اضافی بیلٹ پیپرز مانگ لئے لیکن صوبائی الیکشن کمشنر نے 30فیصد اضافی بیلٹ پیپرز کی وجہ تک نہ پوچھی، محبوب انور نے ریٹرننگ افسران کو کھلی چھٹی دے رکھی تھی، ڈبوں سے نکلنے والے ووٹ پولنگ اسٹیشن میں بھجوائے گئے ووٹوں سے زیادہ تھے، وزیراعظم کے حلقے این اے 120 اور این اے 122میں کوئی اضافی بیلٹ پیپرز نہیں بھجوائے گئے جبکہ ایک اور وفاقی وزیر کے حلقے میں اضافی بیلٹ پیپرز بڑی تعداد میں بھجوائے گئے، 27 اپریل کو 21 ملین بیلٹ پیپرز کی چھپوائی پوسٹل فاؤنڈیشن کو دی گئی، پوسٹل فاؤنڈیشن صرف 17ملین بیلٹ پیپرز چھاپ سکا،4ملین بیلٹ پیپرز کی نمبرنگ 10مئی کی رات تک جاری رہی۔

حفیظ پیر زادہ کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کے وکیل اعتزاز احسن نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 225 کا اطلاق انکوائری کمیشن پر نہیں ہوتا، میری تجویز تھی کہ مرحلہ وار تمام حلقے کھولے جائیں، کمیشن نے ایک حلقہ نہیں بلکہ پورے الیکشن کو دیکھنا ہے، تحریک انصاف کے امیدواروں نے این اے 124 میں عذرداری دائر کی، ٹربیونل نے تحریک انصاف کے امیدوار کی درخواست مسترد کر دی، بشریٰ اعتزاز نے تھیلوں کا معائنہ کرنے کی درخواست دی تھی،2014ء میں اسی حلقے کے انتخابی تھیلوں کا معائنہ کیا گیا تو معائنے کے دوران 125 تھیلوں کی سیلیں ٹوٹی ہوئی تھیں جبکہ 31تھیلوں کی سیلیں موجود ہی نہیں تھیں ، صرف 106تھیلوں سے فارم 15 مل سکے، بعد ازاں جب کمیشن کے حکم پر انسپکشن ہوئی تو تمام فارم 15 مل گے۔

چیف جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیئے کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ فارم 15 بعد میں تھیلوں میں ڈالے گئے ، جس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ انکوائری کمیشن کو فراہم کیا گیا ریکارڈ خود ساختہ ہے، ہر ویک اینڈ پر دس سے پندرہ تھیلے کھولے جاتے تھے، ہر ہفتے تھیلے کھولے جانے کی شکایت کافی عرصہ سے کر رہا ہوں۔ جوڈیشل انکوائری کمیشن کا اجلاس جمعرات کی صبح ساڑھے 9بجے تک کیلئے ملتوی کر دیا گیا۔

کمیشن نے مسلم لیگ (ن) کے وکیل شاہد حامد، (ق) لیگ کے وکیل خالد رانجھا، ایم کیو ایم کے وکیل فروغ نسیم اور بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کے وکیل کو جمعرات کو دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کر دی۔ چیف جسٹس، جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیئے کہ جمعرات کو زیادہ دیر تک بھی بیٹھنا پڑا تو بیٹھیں گے، جمعہ تک اپنی کارروائی مکمل کرلیں گے۔