سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون، انصاف وانسانی حقوق کے چیئرمین جاوید عباسی کی زیر صدارت اجلاس

سرکاری اداروں میں کرپشن کے خاتمے اور لیگل پریکٹیشنر اینڈ بارکونسل رولز 1976ء کے علاوہ ایف جے اے کے ترمیمی بل پر بریفنگ دی گئی

بدھ 1 جولائی 2015 22:00

اسلام آباد ۔ یکم جولائی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ یکم جولائی۔2015ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون، انصاف و انسانی حقوق کے چیئرمین سینیٹر محمد جاوید عباسی کی زیر صدارت اجلاس میں سرکاری اداروں میں کرپشن کے خاتمے اور لیگل پریکٹیشنر اینڈ بار کونسل رولز 1976ء کے علاوہ فیڈرل جوڈیشنل اکیڈمی کے ترمیمی بل ‘ سینیٹر سعید غنی کی طرف سے پارلیمنٹ میں مزدوروں کی نمائندگی کے حوالے سے تفصیلی بحث ہوئی اور سیکریٹری قانون ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے لیگل ایڈوائزر نیب، چیئرمین ایچ ای سی، ڈی جی جوڈیشل اکیڈمی سے بریفنگ لی گئی۔

کمیٹی کے اجلاس میں چیئرمین سینیٹر محمد جاوید عباسی کی طرف سے سرکاری اداروں میں کرپشن میں کمی، نیب اور ایف آئی اے کی طرف سے ایک ہی مقدمہ یا معاملے کی تحقیق و تفتیش، اب تک ایف آئی اے اور نیب کی طرف سے کرپشن کے خاتمے کیلئے کئے گئے اقدامات، مجرموں سے سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے پر مالیاتی وصولیوں پر سیکریٹری قانون جسٹس (ر) سردار رضا نے آگاہ کیا کہ کرپشن کی روک تھام اور خاتمے کیلئے مزید قانون سازی کی ضرورت ہے، کرپشن کی نشاندہی کرنے والوں کو تحفظ دینے کا بل وزیراعظم کو بھجوا دیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

بل کابینہ سے منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں پیش کر دیا جائے گا اور آگاہ کیا کہ کے پی کے میں نیب نے کرپشن کی روک تھام کیلئے سخت قانون سازی کی ہے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد جاوید عباسی نے کہا کہ وفاقی ایجنسیاں کرپشن کی روک تھام کیلئے اور زیادہ سخت اقدامات اٹھائیں اور کرپشن کرنے والے اداروں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جانی چاہئے۔

ایف آئی اے اور نیب میں اختیارات کا توازن قائم کیا جائے۔ چیئرمین کمیٹی نے ہدایت کی کہ چیئرمین نیب آئندہ اجلاس میں مقدمات، فیصلوں، کارکردگی اور وصولیوں کے حوالے سے کمیٹی میں خود شرکت کر کے تفصیلات سے آگاہ کریں۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے مقصود الحسن نے آگاہ کیا کہ ایف آئی اے میں اندرونی احتساب یونٹ قائم کر دیا گیا ہے، 94 افسران کو سزا دی گئی ہے، ایف آئی اے اور نیب کے درمیان کچھ معاملات پر اختلاف ہے، سائبر کرائم کے خلاف اور جعلی ادویات پر سخت کارروائی کرتے ہوئے71 سے زائد مقدمات قائم کئے گئے اور انکشاف کیا کہ 2000ء سے زیر التوا مقدمات کے فیصلے اب آ رہے ہیں۔

ای او بی آئی سے اربوں کی ریکوری کی گئی ہے، 1408 مجرموں کا چالان پیش کر کے سزائیں دلوائی گئی ہیں۔ اس وقت بھی 1ہزار کے لگ بھگ مقدمات زیر التوا ہیں۔ نیب سے چار ہزار مقدمات واپس ہوئے جن پر عمل نہیں ہوا تھا کوئی بھی محکمہ زبانی یا تحریری طور پر کوئی بھی پاکستانی شہری ویب سائٹ اور اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ یکم جولائی۔2015ء نظام کے ذریعے کرپشن کی شکایت کرے تو کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔

104 شیڈولڈ جرائم پر ایف آئی کارروائی کا اختیار رکھی ہے۔ سینیٹر سعید غنی نے سوال اٹھایا کہ کیسے پتہ چلتا ہے کہ جس مقدمہ کی تحقیقات ایف آئی اے بھی کر رہی ہو اس کی تحقیقات نیب بھی کر سکتی ہے اور کیا ایف آئی اے پابند ہے کہ وہ نیب کو بھی آگاہ کرے جس کے جواب میں نیب کے لیگل ایڈوائزر نے آگاہ کیا کہ عوامی مفاد میں نیب کی اتھارٹی بھی ایف آئی اے کے اٹھائے گئے معاملے پر انکوائری کر سکتی ہے۔

سینیٹر سعید غنی کے اس سوال پر کہ ایف آئی اے اور نیب نے اب تک کتنے مقدمات عدالتوں میں دیے ،کتنے فیصلے آئے جس پر چیئر مین کمیٹی نے ہدایت دی کہ دونوں اداروں کے تحقیقاتی مقدمات کی تفصیل آئندہ اجلاس میں پیش کی جائے۔ نیب کی طرف سے صوابدیدی اختیارات کے تحت کسی بھی عدالت سے مقدمہ احتساب عدالت میں منگوانے کے حوالے سے بھی کمیٹی کے اجلاس میں تحفظات کا اظہا ر کیا گیا۔

سینیٹر حافظ حمدالله نے کہا کہ مذہبی تہواروں میں شراب کے استعمال کی اجازت کے لفظ کو آئین سے حذف کیا جائے، کسی بھی مذہب میں شراب نوشی کی اجازت نہیں ہے جس پر کمیٹی میں فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ اجلاس میں اقلیتی ارکان کی رائے کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔ سینیٹر حمد الله نے صدر اور گورنرز کو فوجداری مقدمات سے استثنیٰ کو خلاف آئین و قرآن و سنت قرار دیا ۔

سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام کے مولانا مفتی محمود مرحوم 1973ء کے آئین پر دستخط کرنے والوں میں شامل تھے استثنیٰ شخصیت کے بجائے عہدوں کو حاصل ہے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ صدر مملکت، افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر وفاق کی ضمانت ہیں دنیا بھر میں ان عہدوں کو استثنیٰ حاصل ہے۔ سیکریٹری قانون جسٹس (ر) سردار رضا نے کہا کہ قرآن و سنت کے خلاف معاملات کیلئے فیڈرل شریعت کورٹ ، اسلامی نظریاتی کونسل مجاز فورم ہیں اور مجوزہ ترمیمی بل بھی مبہم ہے۔

سینیٹر عائشہ رضا فاروق نے کہا کہ کوئی قانون اور آئین سے بالا تر نہیں، قانون سازوں نے عہدوں کو استثنیٰ دیا تھا، صدر اور گورنرز مقدموں کو بھگتے رہیں تو اولین فرض ادا کرنا مشکل ہو جائے گا۔ سیکریٹری قانون نے کہا کہ بل واپس لے لیا جائے اور پورے آرٹیکل کو حذف کرنے کیلئے دوبارہ پیش کیا جائے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ مجوزہ ترمیم سے پنڈورہ بکس کھل جائے گا۔

سینیٹر حمد الله نے بل واپس لینے سے انکار پر کمیٹی اراکین سینیٹر سعید غنی اور سینیٹر عائشہ رضا فاروق کی مخالفت کی وجہ سے بل نہ منظور ہوگیا۔ سینیٹر حمد الله نے کمیٹی کے اجلاس میں واضح اعلان کیا کہ وہ نیب کو نہیں مانتے ،ایک ارب کی کرپشن کرنے والے کو 20 کروڑ روپے لے کر رہا کر دیا جاتا ہے۔کمیٹی کے اجلاس میں جوڈیشنل اکیڈمی کو جوڈیشنل یونیورسٹی کا درجہ دینے کے حوالے سے ڈی جی جوڈیشنل اکیڈمی چیئر مین ایچ ای سی، ڈی جی ایچ ای سی کی طرف سے دی گئی بریفنگ اور سیکریٹری قانون کی رائے کے بعد تمام اسٹیک ہولڈرز کو باہمی مشاورت سے مثبت تجاویز کے ساتھ آئندہ اجلاس میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی گئی۔

جوڈیشل اکیڈمی کو یونیورسٹی کا درجہ دینے اور ڈگریوں کے اجراء کے حوالے سے ڈی جی جوڈیشل اکیڈمی کی طرف سے سرکاری مدد اور عدالتی فیصلوں پر سینیٹر سعید غنی نے شدید تحفظا ت کا اظہار کیا اور کہا کہ کسی کی خواہش یا دباوٴ پر اکیڈمی کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ یونیورسٹی کی شرائط مکمل کرنے کے بعد درجہ دینے پر اعتراض نہیں۔

ڈی جی ایچ ای سی نے آگاہ کیا کہ ایچ ای سی نے 35ایکٹرز زمیں کی پیش کش کی ہے اور عمارات پر بھی کئی ملین خرچ آ چکا ہے اور این او سی بھی جاری کر دیا گیا ہے ۔ سینیٹرعائشہ فاروق نے بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ این او سی دے دیا گیا تو عمل کیوں نہیں ہوا تیرہ سو ملین کے اخراجات سے منظوری کے بغیر عمارت کیوں بنی۔ سینیٹر سعید غنی اور سینیٹر عائشہ رضا فاروق کی تجویز کہ اکیڈمی کو یونیورسٹی بنانے کیلئے ورکنگ پیپر میں تبدیلیاں لا کر اس سے بہتر بنایا جائے جس پر کمیٹی نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ موجودہ ایکٹ کی موجودگی میں دوسری یونیورسٹی کا درجہ مشکل ہے ۔

اگلے اجلاس میں سیکریٹری قانون سے مشاورت کر کے تفصیلی اور جامع ورکنگ پیپر پیش کیا جائے ۔ کمیٹی کے جلاس میں سیکریٹری وزارت قانون سردار رضا ، ڈی جی جوڈیشنل اکیڈمی فخر حیات ، چیئر مین ایچ ای سی منصور اے کنڈی ، اے ڈی جی ایف آئی مقصود الرحمان ، لیگل ایڈوائز ر نیب شمائل عزیز اور بار کونسلز کے بابر بلال اور محمد رشید ایڈوکیٹ نے شرکت کی۔

متعلقہ عنوان :