سندھ ہائی کورٹ،گرمی سے اموات، کے الیکٹرک اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو9جولائی کے لیے نوٹسزجاری

جمعرات 2 جولائی 2015 13:48

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 02 جولائی۔2015ء) کراچی میں حالیہ گرمی کی شدید لہر کے باعث جانوں کے زیاں کے خلاف دائر کی گئی ایک اور پٹیشن پر سندھ ہائی کورٹ نے صوبائی و وفاقی حکام اور کے الیکٹرک کو9جولائی کے لیے نوٹسز جاری کردیئے ہیں۔اس حوالے سے یہ تیسری پٹیشن ہے، جو شہریوں کے ایک گروپ اور غیرسرکاری تنظیموں کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔

اس میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ غفلت کے مرتکب حکام کے خلاف کارروائی کی جائے اور متاثرین اور ان کے اہلِ خانہ کو معاوضہ دلوایا جائے۔گرمی کی شدت کی وجہ سے لوگوں کی اموات کے خلاف پٹیشن معروف گلوکار شہزاد رائے، کرامت علی، ناظم فدا حسین حاجی، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ، نیشنل آرگنائزیشن فار ورکنگ کمیونیٹیز، اربن ریسورس سینٹر اور ورکرز ایجوکیشن اینڈ ریسرچ آرگنائزیشن کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔

(جاری ہے)

اس پٹیشن میں پانی و بجلی، ایوی ایشن ڈویژن، موسمیاتی تبدیلی کی وزارتوں کے سیکرٹریوں، نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی، محکمہ موسمیات، نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا)، سندھ کے چیف سیکرٹری، بلدیاتی حکومت اور صحت کے صوبائی سیکرٹریوں، شہر کے کمشنر اور کے الیکٹرک کو مدعاعلیہ نامزد کیا گیا ہے۔

درخواست گزاروں نے اپنی پٹیشن میں کہا ہے کہ کراچی اور صوبے کے دیگر حصوں میں گرمی کی شدید لہر کے باعث 40 ہزار سے زیادہ افراد متاثر ہوئے اور ایک ہزار سے زیادہ افراد کی جانیں گئیں۔

انہوں نے پٹیشن میں کہا ہے کہ متاثرین، زندہ بچ جانے والے افراد اور ان کے اہلِ خانہ کے بنیادی حقوق اور قانون کا نفاذ کیا جائے۔درخواست گزاروں نے عدالت سے کہا ہے کہ متاثرین اور ان کے اہلِ خانہ اور ہیٹ اسٹروک کے مریضوں کو آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کے حقدار قرار دیا جائے۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے ساتھ ساتھ کے الیکٹرک سے انہیں معقول اور مناسب معاوضہ دلوایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں سول سوسائٹی کی متعلقہ اور قابلِ احترام شخصیات پر مشتمل ایک عدالتی کمیشن بھی تشکیل دیا جائے۔درخواست گزاروں نے عدالت سے مزید استدعا کی کہ متاثرین، اور ان کے اہلِ خانہ اور شدید گرمی کی لہر کے سانحے سے متاثر ہونے والے لوگوں کے لیے معاوضے کی مقدار کا تعین کرے، اور یہ بھی تعین کرے کہ اس معاوضے کی ادائیگی میں صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے ساتھ ساتھ کے-الیکٹرک کا کس قدر حصہ ہوگا۔

شہری حقوق کے ایک سرگرم رہنما اور یونائیٹڈ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل رانا فیض الحسن نے سب سے پہلے حکام اور کے-الیکٹرک کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی۔ان کے بعد عوامی مفاد کی قانونی چارہ جوئی کے حوالے سے معروف ایڈوکیٹ مولوی اقبال حیدر نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ وہ عوام کو بلاتعطل بجلی کی فراہمی میں ناکامی کی وجہ سے کے الیکٹرک کی نجکاری کو منسوخ کردیں۔

متعلقہ عنوان :