دنیا بھر میں قوالی کے لائیو شو کی ڈیمانڈ بڑھ گئی ہے‘گلوکار راحت فتح علی

جمعرات 13 اگست 2015 11:32

دنیا بھر میں قوالی کے لائیو شو کی ڈیمانڈ بڑھ گئی ہے‘گلوکار راحت فتح ..

ممبئی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 13 اگست۔2015ء) بھارت کے شہر ممبئی میں نومبر 2008ء کے حملے کے بعد پاکستانی فنکاروں کے لیے بھارت میں آ کر کام کرنا مشکل ہو گیا ہے۔پاکستان کے نامور گلور کار راحت فتح علی نے اپنے ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اب ہم گانے میوزیک ڈائریکٹرز کے ساتھ آپ پر بیٹھ کر ڈسکس کرتے ہیں لیکن اس میں وہ بات نہیں جو ایک سٹوڈیو میں آ منے سامنے ریکارڈ کرنے میں ہے۔

ایک مثال دیتے ہوئے راحت کہتے ہیں اب بجرنگی بھائی جان کے لیے ہم نے مکھڑا گایا، اپروو کروایا پھر جب گانے کی باری آئی تو موڈ تبدیل کر دیا گیا، محسوس ہوا کہ مکھڑے کو تبدیل کیا جا رہا ہے، کتنی ہی بار ایسا بھی ہوا ہے کہ گانے پورے نہ ہونے کی وجہ سے فلم سے گانا ہٹانا پڑا۔پاکستانی گلوکار راحت فتح علی خان کا تعلق جس گھرانے سے ہے وہاں استاد نصرت فتح علی خان اور ان کے والد استاد فتح علی خان جیسے گلوکاروں کی روایت رہی ہے۔

(جاری ہے)

قوالی کو ایک مختلف مقام دینے والے اس گھرانے میں نصرت فتح علی خان کے بعد ان کے وارث راحت فتح علی بنے اور وہ قوالی کے مستقبل کو روشن مانتے ہیں۔راحت نے کہاکہ ہم نے قوالی کو امپرووائز کیا ہے، آج جس طرح کے گانے بن رہے ہیں چاہے وہ کتنے ہی رومانٹک کیوں نہ ہو، قوالی کے سر ان شامل کرنے سے وہ گانے ایک الگ ہی سطح پر پہنچ جاتے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ آج صرف پاکستان اور بھارت میں ہی نہیں بلکہ دنیا میں بھی قوالی کے لائیو شو کی ڈیمانڈ بہت بڑھ گئی ہے۔

راحت کو اس بات کی خوشی ہے کہ بھارت میں پاکستانی گلوکاروں کو گانے کا موقع ملتا ہے۔انھوں نے کہا کہ بھارت میں آج موسیقی میں جو سب سے اچھا کام کر رہے ہیں وہ ہیں وشال بھردواج اور ساجد علی واجد علی کی جوڑی۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے کلچر کو سمجھ کر موسیقی بناتے ہیں۔اپنے چچا نصرت فتح علی خان کو یاد کرتے ہوئے راحت بتاتے ہیں وہ بہت غصے والے تھے، پرسکون رہتے تھے لیکن تبھی تک جب تک کوئی غلطی نہیں ہوتی تھی- ایک بار ہارمونیم کے ریاض میں مجھ سے ایک حرکت نہیں لگ رہی تھی، وہ ڈانٹ مجھے آج بھی یاد ہے۔

راحت نے بتایا کہ نصرت فتح علی خان گائیکی کو لے کر اتنے حساس تھے کہ ان کے سامنے گانا تو دور کوئی منہ بھی نہیں کھولتا تھا لیکن اگر ان کا ڈر تھا تو ان کے گانے کی عزت بھی اتنی ہی تھی اور ہے۔ وہ اسے بہت بڑی ذمہ داری مانتے ہیں، وہ آج بھی اپنے استاد نصرت فتح علی خان کی کمی محسوس کرتے ہیں۔

متعلقہ عنوان :