جج کا عہدہ پھولوں کی سیج نہیں ‘ عدالتیں آئین اور قانون کی پابند ہوتی ہیں ‘ جسٹس جوادایس خواجہ

جمعرات 13 اگست 2015 16:54

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 13 اگست۔2015ء) سپریم کورٹ آف پاکستان کے نامزد چیف جسٹس مسٹر جسٹس جوادایس خواجہ نے کہا ہے کہ جج کا عہدہ پھولوں کی سیج نہیں ‘ عدالتیں آئین اور قانون کی پابند ہوتی ہیں ‘ عدالتوں کے جج آئین کا دفاع اور تحفظ کا حلف لیتے ہیں ‘ فرائض کے مطابق جج کسی قسم کا دباؤ قبول نہیں کریگا ‘عدالتوں کے فیصلوں پر رائے زنی کر نا عوام کا حق ہے ‘چیف جسٹس ناصر الملک کے بہت سے فیصلے بطور عدالتی نظائر پڑھے جائیں گے ‘ فیصلوں سے آنے والے جج صاحبان اور وکلاء استفادہ کریں گے ۔

جمعرات کو جسٹس ناصر الملک ‘چیف جسٹس آف پاکستان کی آئینی مدتِ منصبی کی تکمیل کے موقع پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نامزد چیف جسٹس مسٹر جسٹس جوادا یس خواجہ نے کہاکہ ایک ایسی مجلس سے مخاطب ہونا میرے لیے بہت اعزاز کی بات ہے جہاں قانون اور وکلا ء برادری سے تعلق رکھنے والے ممتاز افراد موجود ہیں اور جس کا مقصد ہمارے سینئر رفیق کار چیف جسٹس ناصرالملک صاحب کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرنا ہے کیوں کہ وہ آج سے دو دن بعد اپنے منصب کے فرائض پورے کر کے چیف جسٹس کے آئینی مدتِ منصبی سے عہدہ براء ہو جائیں گے ۔

(جاری ہے)

آج کی یہ تقریب انھی کے اعزاز میں منعقد کی گئی ہے ۔گو کہ کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن میں آج آپ کا زیادہ وقت نہیں لینا چاہتا کیونکہ آج کا دن فاضل چیف جسٹس صاحب کے فکر کے بیان اور اظہارِ رائے کا دن ہے۔ اس موقع کی مناسبت سے مجھے غالب# کا ایک شعر بے اختیار یاد آ رہا ہے۔ انھوں نے کیا خوب کہا تھا:
بازیچہٴ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے
جسٹس جوادایس خواجہ نے کہاکہ ہمارے بزرگ اولیا کرام نے بھی یہی بات باور کرائی ہے کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے اس سے یوں گزرنا ہے کہ دل و نظر آگے کی دنیا پر مرکوز ہوں جو اصل حقیقت کی دنیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ ہمارے سینئر رفیق کار چیف جسٹس ناصرالملک صاحب اسی مقولے پر کاربند رہے ہیں۔ انھوں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں پہلے بطور وکیل اور اس کے بعد بطور جج ، چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ اور بعد ازاں بطور جج وچیف جسٹس سپریم کورٹ بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ محض رسمی بات نہیں ہے ، بلکہ حقیقت ہے کہ انھوں نے اپنے رفقاء اور وکلا ء میں اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی بدولت انتہائی محترم و معتبر مقام حاصل کیا ہے۔

انھوں نے 1977 میں انگلستان سے بار ایٹ لاء کرنے کے بعد وکالت کا آغاز پشاور میں کیا اور اس کے ساتھ ساتھ خیبر لاء کالج اور پشاور یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے رہے ۔ درس و تدریس کے علاوہ وہ وکلاء میں بھی بہت مقبول رہے اور اس بنا پر پشاورہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سکریٹری اور 2 مرتبہ صدر منتخب ہوئے ۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ جج کے منصب پرہونا بہت بڑا اعزاز سمجھا جا تا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت بھاری اور کڑی ذمہ داریاں بھی اس منصب کے ساتھ منسلک ہیں۔

شاید عوام ، سائل ، فریقین مقدمہ اور وکلا صاحبان اس بات کا مکمل طورپراحساس نہ کر پائیں کہ جج کا عہدہ پھولوں کی سیج نہیں ہے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ قاضی کے منصب پر فائز ہو نا الٹی چھری سے ذبح ہونے کے مترادف ہے ۔ یقینا اس حدیث مبارکہ کا مکمل ادراک اور درست فہم ایک جج کو ہی ہوتا ہے، خواہ عدالت میں پیش ہونے والوں یا دور سے دیکھنے والوں کواس کا احساس ہو سکے یانہ ہو سکے۔

انہوں نے کہاکہ مجھے فاضل چیف جسٹس صاحب کے ساتھ بطور رفیق کار 6 سال سے زائد کا عرصہ کام کرنے کا موقع ملا ہے۔ اس دوران میں ان کے ساتھ بینچ پر بھی بیٹھا ہوں اور عدالت کے اندر اور عدالت سے باہر انھیں بہت قریب سے دیکھنے کا اتفاق بھی ہوا ہے۔ انھوں نے اپنے فرائض کے ادائیگی کے دوران ہر حالت میں اس عدالت کے وقار اور ساکھ کو ملحوظ رکھا ہے۔ میں اس موقع پریہ اعتراف بھی کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے جب بھی مقدمات سے ہٹ کر کسی رہنمائی کی ضرورت محسوس ہوئی ہے، میں نے بلاجھجک چیف جسٹس ناصرالملک صاحب کی رائے سے استفادہ کیا ہے اور انھوں نے بھی کمال فراخ دلی سے ایک شفیق سینئر کے طور پر اپنی رائے دی ہے۔

انھوں نے بہت کٹھن اور پیچیدہ قانونی معاملات کو بہت خوبی سے سلجھایا ہے، جس سے ان کی علمی اور عقلی صلاحیتیں کھل کر سامنے آتی ہیں۔ قانونی فیصلوں میں زبان پر ان کی دسترس اور اظہار رائے پیچیدہ معاملات کو بھی عام فہم زبان میں بیان کرنے کی قدرت کا عکاس ہے۔ نہوں نے کہاکہ آج اس مختصر وقت میں فاضل چیف جسٹس صاحب کی ان تمام خدمات کا ذکر کرنا نہ تو مقصود ہے اور نہ ہی ممکن۔

تاہم ان کے چند فیصلوں کا حوالہ دینا ضروری ہے، جن سے ان کی قانونی مہارت ،دسترس اور علمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔بطور چیف جسٹس، انھوں نے محمد ظفر علی کے مقدمے میں سرکاری ملازمین کی سنیارٹی کے بارے میں اور محمد رضا حیا ت حراج کے مقدمے میں الیکشن معاملات میں ٹریبونلز کے احکامات کے بارے میں جو فیصلے دیے ہیں، ان کا تذکرہ ناگزیر ہے۔

ان کے علاوہ درانی سرامکس کے مقدمے میں بھی انھوں نے ٹیکس اور فیس کی تفریق نمایاں انداز میں بیان کی ہے۔ یہ وہ مقدمات ہیں جو منظر عام پر نہیں آئے اور میڈیااور عوام کی توجہ کا مرکز نہیں بنے گو کہ ان مقدمات کی اہمیت بہت ہے جن مقدمات میں فاضل چیف جسٹس صاحب نے اہم آئینی معاملات اور عوام کی دلچسپی کے معاملات میں فیصلے سنائے ہیں وہ تو پہلے ہی عوام کے علم میں ہیں جیسا کہ حالیہ آئینی فیصلہ، جس میں آئینی ترامیم کے بارے میں تاویل پیش کی گئی ہے۔

اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں چیف جسٹس ناصرالملک صاحب نے جس یکسوئی تندہی اور محنت کا مظاہرہ کیا ہے ، وہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔محترم چیف جسٹس کو آج اس عدالت میں 10 سال سے زائد کا عرصہ ہو گیا اس دورانیہ میں ہماری عدلیہ نے بہت طویل مسافت طے کی ہے اورکئی مشکلات کا سامنا بھی کیا ہے۔ اس بات کا بھی ذکر ضروری ہے کہ عدالتیں آئین اور قانون کی پابند ہوتی ہیں۔

عدالتوں کے جج اپنے مناصب کے حلف لیتے ہوئے اس بات کا اعادہ کرتے ہے کہ وہ آئین کا دفاع اور تحفظ کریں گے۔ یہاں میں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ عدالتیں اور جج آئین اور قانون ہی کی بنا پر فیصلے صادر کرتے ہیں۔ بعض اوقات یہ فیصلے سراہے جاتے ہیں اور بعض اوقات ہدفِ تنقید بھی بنتے ہیں کیونکہ عدالتیں اپنا کام کھلی عدالت میں سر انجام دیتی ہیں، اس لیے ان کی کارروائی اور فیصلے عوام اور میڈیا کی دلچسپی کا باعث بنتے ہیں۔

اُن فیصلوں پر بحث، تجزیے اور تبصرے بھی ہوتے ہیں اور یہ عوام کا حق ہے کہ وہ عدالتی فیصلوں پر رائے زنی کریں، لیکن بسا اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تبصرہ کرنے والے نے یا تو عدالتی فیصلہ پڑھا نہیں یا اگر پڑھا ہے تو اسے سمجھا نہیں۔ تبصرہ نگار، وکلا اور عدالتی فیصلوں کا جائزہ لینے والوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تن دہی اور نیک نیتی سے عدالتی فیصلوں کوآسان اور عام فہم انداز میں عوام الناس تک پہنچائیں کیونکہ یہ عوام کی امانت ہے۔

فاضل چیف جسٹس صاحب کے بہت سے فیصلے بطور عدالتی نظائر پڑھے جائیں گے اور ان فیصلوں سے آنے والے جج صاحبان اور وکلاء استفادہ کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ مجھے فخر ہے کہ میں نے 6 سال سے زائد کا عرصہ فاضل چیف جسٹس صاحب کے ساتھ جونےئر رفیقِ کار کے طور پر گزارا اور مجھے اُن کی بلند قانونی اور آئینی صلاحیتیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اُنھوں نے جو بھی فیصلے کیے وہ قانون پر مبنی تھے نہ کہ ذاتی یا عوامی رائے پر۔

ایک جج کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ دباؤ قبول نہیں کرے گاچاہے وہ دباؤ سماجی رائے کا ہو یا کوئی اور۔ یہاں پر جج کے حلف کے الفاظ دہرانا ضروری ہے جو کہ بعض اوقات لوگوں کی نظر سے اوجھل رہتے ہیں۔ ”میں، ہر حالت میں، ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ، بلا خوف و رعایت اور بلا رغبت و عناد، قانون کے مطابق انصاف کروں گا“۔بطور چیف جسٹس آف پاکستان انھوں نے نظامِ انصاف کی بہتری اور سپریم کورٹ کی انتظامی ترقی کے لیے کئی اصلاحات نافذ کیں۔

اگرچہ پاکستان بھر کی عدلیہ کے سربراہ کی حیثیت سے انھیں کام اور ذمہ داریوں کا بھاری بوجھ اٹھانا پڑتا تھا لیکن اس کے باوجود، انھوں نے انصاف کے تقاضے پورا کرنے کے لیے دن رات کو ایک کیے رکھا۔انصاف کی فراہمی کے لیے ان کی لگاتار جدوجہدقابلِ ستائش ہے۔اگرچہ یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے سبھی مقاصد حاصل ہوگئے ہیں، لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ بہت کچھ کیا جا چکا ہے اور ہم بھی ان شأاللہ ان کی اس جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔

یہاں پر میں چیف جسٹس صاحب کے اعلیٰ کردار کی کچھ خصوصیات بتانا چاہوں گا۔ وہ نہایت نرم خُو ہیں اور بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ اُن کا پیمانہٴ صبر کبھی لبریز نہیں ہو گا اُن میں ایک اور خاصیت جو کہ میرے نزدیک بہت قابلِ ستائش ہے وہ یہ ہے کہ اُن کے مزاج میں خود نمائی کا کوئی عنصر شامل نہیں اور حد درجہ انکساری سے کام لیتے ہیں۔ اُن کے پاؤں ہر وقت زمین پر ہی جمے رہتے ہیں گو کہ اُن کے منصب کے حوالے سے لوگوں میں شاید اُنہیں بلند پرواز دیکھنے کی خواہش ہوتی ہو گی۔

آخر میں، میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج کا دن ہمارے لیے خوشی اور غم کے امتزاج کا لمحہ لے کر آیا ہے۔خوشی کا موقع تو اس لیے ہے کہ ہم نے دیکھا ہے، اور اس بڑے اجتماع کی یہاں موجودگی بھی ثابت کرتی ہے، کہ ہمارے بھائی اور سینئر نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی ، خواہ اس کا تعلق عدالتی بنچ سے ہو یا بارسے، نہایت کامیابی سے بسر کی اور آج وہ کامل اطمینان اور اعتماد سے اپنی آئینی مدتِ منصبی کی تکمیل کر رہے ہیں۔

دوسری طرف ہمیں ان کے اس بنچ سے الگ ہونے اور ہم سے جدا ہو جانے کا رنج بھی ہے۔لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہی اصولِ فطرت اور تقدیر کائنات ہے۔ کسی بھی مقام یا منصب پر آنے والا ایک نہ ایک دن وہاں سے رخصت ہوجاتا ہے۔یہ آنا گویا جانے ہی کے لیے ہوتا ہے۔انہوں نے کہاکہ آپ سے اجازت چاہنے سے پہلے ، میں اپنے بھائی پر ایک خوشگوار اور پر مسرت زندگی کے نئے آفاق وا ہونے کی دعا کرتا ہوں اور اپنی بات کا اختتام ایک مفکر کے اِس قول سے کرتا ہوں جنھوں نے کہا تھا کہ”عمر محض ایک عدد، ایک نمبرشمار ہے۔انسانی تجربات کبھی زائد المدت نہیں ہوتے، انھیں ضرور استعمال کرتے رہنا چاہیے۔تجربے کی مدد سے انسان کم مدت اور کم تر توانائی کے ذریعے زیادہ نتائج حاصل کر سکتا ہے“۔