کوئلے سے پیدا ہونیوالی بجلی کی 660میگا واٹ کمرشل پیداوار 2018ء میں شروع ہوجائیگی، شمس الدین احمد شیخ

پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی بدولت 2021 تک قومی گرڈ میں 16000 میگا واٹ بجلی شامل ہوجائیگی،صحافیوں سے گفتگو

جمعرات 13 اگست 2015 17:33

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 13 اگست۔2015ء) سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او ) شمس الدین احمد شیخ نے کہا2018 میں کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی کی 660 میگا واٹ کمرشل پیداوار شروع ہوجائی گی۔ تھر کوئلے کی کان کنی کے منصوبے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے انہوں نے کہا صوبہ سندھ کے تھر صحرا میں کوئلے کے ساتھویں بڑے ذخائر ہیں جن کا حجم 175 بلین ٹن ہے. انہوں نے مزید کہا کہ ایس ای سی ایم سی کو تھر بلاک ٹو مختص کیا گیا ہے جس میں کمپلینٹ پرسن سٹیٹمنٹ آر ڈبلیو ای جرمنی کے مطابق 1.57 بلین لگنائٹ موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ اکیلا تھر بلاک ٹو پچاس سال تک 5ہزار میگا واٹ بجلی کی پیداوار کرسکتا ہے مزید براں تیس سال کیلئے کان کنی کی لیز جاری کردی گئی ہے۔

(جاری ہے)

شمس الدین احمد شیخ نے کہا کہ تھر کوئلہ فیلڈز کا موازنہ دنیا کے اوپن پٹ مائنز سے کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس میں راکھ کم ہوتی ہے اور حرارت زیادہ درکار ہوتی ہے. انہوں نے مزید کہا کہ کوئلے کا سٹرپپنگ تناسب مائننگ آپریشن کیلئے بہت مناسب ہے۔

لگنائٹ نہ صرف پاور پلانٹ میں فورا استعمال ہوسکتا ہے بلکہ دور دراس کے پاور پروجیکٹس تک ٹرانسفر یا منتقل کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ بھارت چین اور جرمنی میں ہوتا ہے۔ اس حوالے سے آرڈبلیو ای جرمنی کی ایک اسٹدی کے مطابق تھر لگنائٹ کو با حفاظت دوسری جگہ منتقل کیا جاسکتا ہے۔ شمس الدین احمد شیخ نے تھر کوئلے کی کان کنی اور پاور جنریشن کے سلسلے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تعاون اور کردار کو سراہا۔

انہوں نے حکومت کی جانب سے اینگرو پاور جنریشن لمیٹڈ تھر اور ایس ای سی ایم سی کو پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں شامل کرنے کے اقدام کی بھی تائید کی۔صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ نے کہا پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی بدولت چینی انویسٹمنٹس کے ذریعے 2021 تک قوم گرڈ میں 16000 میگا واٹ بجلی شامل ہوجائی گی۔ جس سے پاکستان میں جاری توانائی بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی. انہوں نے کہا کہ توانائی کے سولہ اور ٹرانسپورٹ سیکٹر کے پانچ منصوبے ارلی ہارویسٹنگ پروجیکٹ میں چنے گئے ہیں۔

وفاقی اور صوبائی حکومت کی غیر مشروط حمایت اور تعاون ہی اس منصوبے کے مقررہ مدت میں مکمل ہونے کی وجہ ہے۔ اس ضمن میں کافی کام ہوچکا ہے اور ایس ای سی ایم سی سال 2014 کے چوتھے سہ ماہی میں منصوبے کی فنانشل کلوزنگ کردیگی۔انہوں نے سی ایس آر کے حوالے سے اس بات کا اعادہ کیا کہ تھر کے لوگوں کیلئے دوبارہ آبادکاری، زمین کی خرید کیلئے منصوبے کے کل اخراجات کا 10 فیصد اور منصوبے کے منافے کا دو فیصد حصہ سی ایس آر کی مد میں خرچ کیا جائیگا جس کیلئے سٹیزن فاؤنڈیشن کے ساتھ ایک معا ہدہ طے پا چکا ہے جس کے تحت 148.5 ملین روپے سے اسکول یونٹ تھر پارکر میں قائم کئے جائینگے مزید براں پینے کا صاف پانی اور صحت عامہ کے منصوبوں پر بھی خاص توجہ دی جائیگی۔

متعلقہ عنوان :