بھارت میں موٹاپا، ذیابیطْس اور دوسری غیر متعدی بیماریاں ایک بہت بڑا خطرہ بن گئی ہیں،رپورٹ

نوجوان نسل بھی اپنا موٹا پا کم کرنے کے لئے سرجری کا سہارا لے رہی ،ماہرین کا اظہار تشویش رواں سال بجٹ کے دوران موٹاپے کے باعث وزیر خزانہ کو بیٹھ کر تقریر پوری کرنا پڑی

اتوار 16 اگست 2015 11:25

بھارت میں موٹاپا، ذیابیطْس اور دوسری غیر متعدی بیماریاں ایک بہت بڑا ..

نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 16 اگست۔2015ء) متعدی امراض اور غربت جیسے مسائل بھارت میں صحت کے شعبے کے لیے قومی بجٹ میں مختص کْل رقم کا بیشتر حصہ ہڑپ کر جاتے ہیں۔ ایسے میں موٹاپا، ذیابیطْس اور دوسری غیر متعدی بیماریاں ایک بہت بڑا خطرہ بن گئی ہیں حتی کہ نوجوان نسل بھی اپنا موٹا پا کم کرنے کے لئے سرجری کا سہارا لے رہی جو انتہائی تشویش ناک امر ہے۔

ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق بھارت میں اقتصادی ترقی کے بعد ایسا خیال کیا گیا تھا کہ ہیلتھ کیئر کے شعبے کو بھی ترقی حاصل ہو گی لیکن بظاہر ایسا دکھائی نہیں دیتا کیونکہ غربت اور متعدی امراض کو قابو کرنے کے لیے قومی بجٹ میں مختص رقم کا بڑا حصہ بدستور استعمال ہو رہا ہے۔ ایسے میں وہ بیماری عام ہونے لگی ہے جو غیر متعدی اور دکھائی نہ دینے والی خیال کی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

یہ بیماری موٹاپا ہے۔ موٹاپے کی وجہ سے ذیابیطْس اور امراضِ قلب جیسی ہلاکت خیز بیماریاں انتہائی تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہیں۔ سماجی ماہرین کے مطابق اقتصادی ترقی سے بھارت کے آسْودہ حال طبقے کے ساتھ ساتھ شہری مِڈل کلاس کا لائف اسٹائل بھی بدل کر رہ گیا ہے اور اِس میں تن آسانی پیدا ہوئی ہے۔ رواں برس بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ ارْون جیٹلی کو کئی مرتبہ تقریر روکنا پڑی اور آخرکار انہوں نے بیٹھ کر تقریر مکمل کی۔

اِس کی وجہ اْن کا موٹاپا تھا۔ انہوں نے سرجری کروا کر وزن بھی کم کروایا ہے۔

مودی حکومت کے دو اور وزراء بھی اپنے موٹاپے کی وجہ سے مشہور ہیں، ان میں مٹھائیاں کھانے کے شوقین نیتن گڈکری اور وینکائیا نائیڈو ہیں۔ اِن دونوں سیاستدانوں نے بھی سرجری کروا کر اپنے موٹاپے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے۔ موٹاپے سے پیدا ہونے والی بیماریوں کو ”سائلنٹ کلرز“ کہا جاتا ہے اور بھارت میں لاکھوں افراد کو امراضِ قلب، فشارِ خون یا بلڈ پریشر اور شْوگر یا ذیابیطْس کا سامنا ہے۔

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے گنگا رام ہسپتال کے سینیئر سرجن ویوک بنڈال کا کہنا ہے کہ موٹاپے کے ہاتھوں تنگ ٹین ایجر بھی سرجری کروا رہے ہیں۔ سولہ سالہ وجے لْگانی کا وزن 190 کلو گرام اور اْس کے بڑے بھائی بیس برس کے سریش لْگانی کا وزن 150 کلوگرام تھا۔ اِن دونوں نے سرجری کروا کر اپنے اپنے وزن میں سے تقریباً 50 کلوگرام فالتو چربی نکلوائی ضرور لیکن وہ ابھی بھی ملک کے ساٹھ ملین موٹے یا زائد الوزن لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔

سرجن ویوک بنڈال کے مطابق چند برس قبل تک بھارت میں موٹاپے کا باعث بننے والے ٹِشْوز کا علاج باریاٹِرک سرجری سے کیا جاتا تھا اور اِس کے ماہرین چند سو تھے لیکن اب یہ تعداد دس ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔نئی دہلی کے پْشپا وتی سِنگھانیا ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے محقق ڈاکٹر انی رْودھ وِج کا کہنا ہے کہ بھارت میں موٹاپے کو بیماری کے طور پر نہیں لیا جاتا اور یہ باعثِ افسوس ہے کہ بھارتی معاشرے میں موٹاپے کو خوش حالی کا استعارہ سمجھا جاتا ہے۔

کئی اور دوسرے طبی ماہرین کا خیال ہے کہ موٹاپے میں اضافے کی وجہ ”جَنک فْوڈز“ کا غیر معمولی استعمال ہے۔ سماجی ماہرین کہتے ہیں کہ بھارت کے شہروں کا متوسط طبقہ بھی دیکھا دیکھی اپنا لائف اسٹائل تبدیل کر بیٹھا ہے۔ بھارت کے وزیر صحت جے پی ناڈا کے مطابق اْن کے ملک میں حالیہ برسوں میں اَمراض قلب، نظام تنفس کی دائمی بیماریاں اور ذیابیطس میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔

متعلقہ عنوان :