منشیات سے پاکستان میں یومیہ 700 افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں،امریکی جریدہ ہلاکتوں کے یہ اعدادوشمار دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ میں ہونے والی ہلاکتوں سے کہیں زیادہ ہیں،رپورٹ

منگل 18 اگست 2015 17:19

منشیات سے پاکستان میں یومیہ 700 افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں،امریکی ..

نیو یا رک(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 18 اگست۔2015ء) امریکی جریدے ”فارن پالیسیکا کہنا ہے کہ پاکستان میں منشیات کی لت سے روزانہ 700افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، ہلاکتوں کے یہ اعدادوشمار دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ میں ہونے والی ہلاکتوں سے کہیں زیادہ ہیں، پاکستان میں یومیہ 39افراد دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے یو این او ڈی کی رپورٹ میں کہا گیاکہ افغانستان کی 45 فیصد منشیات پاکستان سے گزرتی ہے۔

لہذا 67لاکھ پاکستانی جو منشیات کے عادی ہیں یا اس مکروہ دھندے میں ملوث ہیں ،انہیں اس منشیات تک رسائی بہت آسان ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ دہشتگردی کے فنڈز کیلئے افغان طا لبان ڈرگز کی تجارت کرتے ہیں، افغانستان میں منشیات کی پیداوار سے 70ارب ڈالر کی آمدنی مختلف مافیاز اور دہشتگرد گروپوں کے پاس جاتی ہے اس آمدنی سے 2 ارب ڈالر تحریک طالبان پاکستان کو ملتے ہیں،کراچی میں بھی طالبان کے جرائم پیشہ افراداور گینگز سے رابطیہیں۔

(جاری ہے)

بلوچ علیحدگی پسند بھی دہشتگردی کے لئیمنشیات سے ہونیوالی آمدنی کو استعمال کرتے ہیں۔پاکستان میں ابھی تک منشیات کی غیر قانونیتجارت اور دہشتگردی کے درمیان خطرناک گٹھ جوڑ سے چند لوگ ہی واقف ہیں۔تاہم پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے گزشتہ ہفتے اس خطرناک گٹھ جوڑ کو توڑنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ جریدہ لکھتا ہے کہ پاکستان کو درپیش سب سے بڑا خطرہ اکثر دہشتگردی کو سمجھا جاتا ہے جب کہ سب سے بڑا خطرہ جس پر ابھی تک کم توجہ دی گئی ہے، وہ پاکستا ن کیلئے منشیات کا خطرہ ہے۔

افیون کی 85 فیصد پیداوار کے ساتھ افغانستان دنیا بھر میں پہلے ہی سرفہرست ہے تاہم حال ہی میں یہ پیداوار ریکارڈ سطح پر پہنچ چکی ہے۔ منشیات کی اسمگلنگ اور مختلف جرائم نے افغانستان اور پاکستان کے خطے کو انتہائی کمزورکردیا ہے یہی کمزور ی منشیات فروشوں اور عادیوں کوا?سان رسائی فراہم کرتی ہے اسی وجہ سے پاکستان میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

افغان طالبان کے مختلف گروہ ڈرگ مافیاز کے روپ دھار چکے ہیں،وہ مالی فوائد اور دہشتگردانہ کارروائیوں کیلئے افیون اور ہیروئن کا استعمال کرتے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان منشیات اور دہشتگردی کے درمیان تعلق کوتسلیم کرتے ہوئے منشیات کے خاتمے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ اس کے باوجود، پاکستان کیکچھ رہنما اور حکام منشیات اور دہشتگردی کے گٹھ جوڑ پر اتفاق نہیں کرتے۔

اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) اور کچھ وزارتوں کے عہدے داراس گٹھ جوڑ کی صریحاً تردید کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ افغان منشیات کی تجارت سے دہشتگردی کو فنڈنگ نہیں ہوتی۔ نارکوٹکس کنٹرول ڈویڑن کے غالب بندیشہ کا کہنا تھا کہ منشیات کی مالی مدد سے ہونے والی دہشتگردی کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔ 2014 میں اے این ایف کے ایک سینئر عہدیدار نے منشیات کی رقم پاکستان بھیجے جانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغان طالبان سے مالی امداد نہیں لے رہی۔

سینیٹر طاہر مشہدی کا کہنا تھا کہ سی آئی اے تحریک طالبان پاکستان کی مالی اعانت کیلئے منشیات کے پیسے کا استعمال کرتی ہے۔ اے این ایف کے ڈائریکٹر میجر جنرل ظفر اقبال کا کہنا تھا کہ منشیات کی اسمگلنگ کا الزام القاعدہ، طالبان، یا کسی بھی دوسرے مخصوص عسکریت پسند یا دہشت گرد گروپ کے خلاف عائد نہیں کیا جا سکتا ہے۔جریدے کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستان کو منشیات سیسنگین مسئلہ درپیش ہے۔

اقوام متحدہ کے منشیات اور جرائم (یو این او ڈی) کی رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان کو افغانستان سے منشیات اسمگلنگ سے نمٹنے میں پاکستان کو چیلنج کا سامنا ہے۔ ہلاکتوں کیحالیہ اعداد و شمار ایک چونکانے والی تصویر پیش کرتے ہیں۔امریکی حکام کے مطابق، تحریک طالبان پاکستان کی ا?مدنی کا بڑا ذریعہ منشیات کی تجارت ہے۔منشیات کے اسمگلروں کے ساتھ قریبی روابط اور طالبان کی طرف سے ڈرگز پر عائد نام نہادٹیکس سے انہیں منشیات کی تیاری یا نقل و حمل کے بغیر منافع کا بھاری حصہ مل جاتا ہے۔ 2009 میں ایک اندازے کے مطابق منشیات کی تجارت سے طالبان کی سالانہ سو سے تین سو ملین ڈالر آمدنی تھی۔`

متعلقہ عنوان :