عدلیہ کا بوجھ کم کرنے کے لیے اے ڈی آر کا قانون بنانا ہو گا، پنچایت کا نظام لانے سے عوام کو فوری سستا انصاف ملے گا،چھوٹی عدالتوں میں انٹر اکورٹ اپیل ختم کر دی جائے، ازخود نوٹس کو بھی محدود کیا جائے،پٹیشن صرف وہی سامنے آنی چاہیے جس پر پہلے جج صاحبان بحث کر کے فیصلہ کریں کہ یہ پٹیشن بنتی ہے یا نہیں، پولیس کا 1934 ء کا ایکٹ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، عدالت کی زبان اردو ہونی چاہیے

سابق سینیٹر اور معروف قانون دان ایس ایم ظفر کی سینیٹ کی کمیٹی آف دی ہول کو بریفنگ

بدھ 19 اگست 2015 21:41

اسلام آباد ۔ 19 اگست (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 19 اگست۔2015ء) سابق سینیٹر اور معروف قانون دان ایس ایم ظفر نے کہا ہے کہ عدلیہ کا بوجھ کم کرنے کے لیے اے ڈی آر کا قانون بنانا ہو گا کیونکہ بڑے معاشی کیس زیادہ وقت لے لیتے ہیں اس سے باہر سے سرمایہ کاری آئے گی کیونکہ سرمایہ کار خوفزدہ نہ ہو گا کہ اسے قانونی پیچیدگیوں میں الجھا دیا جائے گا، پنچایت کا نظام لانے سے بھی عوام کو فوری سستا انصاف ملے گا،چھوٹی عدالتوں میں انٹر اکورٹ اپیل ختم کر دی جائے اور انٹرا کوٹ اپیل صرف سپریم کورٹ میں کی جا سکے، ازخود نوٹس کو بھی محدود کیا جائے،پٹیشن صرف وہی سامنے آنی چاہیے جس پر پہلے جج صاحبان بحث کر کے فیصلہ کریں کہ یہ پٹیشن بنتی ہے یا نہیں، پولیس کا 1934 ء کا ایکٹ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، عدالت کی زبان اردو ہونی چاہیے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے سینیٹ کی کمیٹی آف دی ہول کو بریفنگ دیتے ہوئے کیا۔کمیٹی کے اجلاس کے دوران سینیٹر چوہدری تنویر نے کہا کہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہر شخص کو اتنی آگاہی ہو کر وہ از خود انصاف کے حصول کے لیے متحرک ہو سکے، میٹرک کی سطح تک ایسی تعلیم ضرور دی جائے کہ وہ اپنے قانونی مسائل کو سمجھ سکے، پولیس کا نظام کافی کمزور ہو چکا ہے۔

مشاہد حسین سید نے کہا کہ انصاف کی فراہمی بیس کروڑ عوام کا مسئلہ ہے، لوگ تھانہ کچہری جانے سے ڈرتے ہیں انصاف کیسے ملے گا، اصل ایشو یہ ہے کہ ہمارے ادارے کمزور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سول ججوں اور ایڈیشنل سیشن ججوں کی آسامیاں خالی ہیں، عدالتوں میں کیسوں کی بھر مار ہے لیکن سننے والا کوئی نہیں۔ سابق سینیٹر ایس ایم ظفر نے کہا کہ پارلیمنٹ فوجی عدالتوں کے حوالے سے قانون سازی پر مبارکباد کی مستحق ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر عوام کو انصاف کی فوری فراہمی ممکن نہ ہو سکی تو جمہوریت کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں 1970ء میں بھی کمیشن بنا تھا لیکن اس کی رپورٹ سامنے نہ آ سکی، ہمارا انصاف کا سسٹم بوسیدہ ہوگیا ہے اس کے نقائض کو دور کرنے کی ضرورت ہے اس میں سب سے اہم مسئلہ لاپرواہی اور دوسرا کرپشن ہے، سوال یہ ہے کہ ہمیں آغاز کہاں سے کرنا ہو گا، ہمیں بہترین افراد پر مشتمل ایک ادارہ بناناہو گا جو اس حوالے سے مثبت تجاویز دے، آپ ایسے اہل افراد تلاش کریں۔

انہوں نے تجویز کیا کہ ہمیں جوڈیشل اکیڈمی کو آزاد کرنا ہو گا کہ وہ ہمیں بتائے کہ فوری انصاف کی فراہمی کے حوالے سے ہم کیسے آگے جا سکتے ہیں، جج صاحبان جوڈیشل کمیشن میں جا کر سیکھیں۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کا احترام اپنی جگہ اور انصاف کی بروقت فراہمی اپنی جگہ ہے، ہمیں ایسے سول جج درکار ہیں جو خود اپنا کردار ادا کر سکیں، وہ فوراً نوٹس جاری نہ کریں اور اگر کوئی درخواست آئے تو اس پر غور کر کے نوٹس جاری کریں اور جوڈیشل اکیڈمی کے ذریعے سول ججوں کی تربیت کریں۔

عدالت خود پہلے دونوں پارٹیوں کے ساتھ مل کر انکوائری کرے تاکہ کوئی فریق ایک دوسرے کے ڈاکومنٹ کورد نہ کر سکے۔انہوں نے کہا کہ عدلیہ کا بوجھ کم کرنے کے لیے اے ڈی آر کا قانون بنانا ہو گا کیونکہ بڑے معاشی کیس زیادہ وقت لے لیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اس مقصد کے لیے 1940ء کاقانون بھی تبدیل کرنا ہو گا، اے ڈی آر کا قانون بننے سے سرمایہ کاروں کو سہولت ہو گی اور باہر سے سرمایہ کاری آئے گی کیونکہ سرمایہ کار خوفزدہ نہ ہو گا کہ اسے قانونی پیچیدگیوں میں الجھا دیا جائے گا، دنیا کے بیشتر ممالک میں اے ڈی آر ہے۔

انہوں نے تجویز کیا کہ پنچایت کا نظام لانے سے بھی عوام کو فوری سستا انصاف ملے گا، بھارت میں بھی پنچایت کا نظام واپس لاگو کر دیا گیا ہے، اس سے عدالتوں پر بوجھ کم ہو گا۔ انہوں نے تجویز کیا کہ چھوٹی عدالتوں میں انٹر اکورٹ اپیل ختم کر دی جائے اور انٹرا کوٹ اپیل صرف سپریم کورٹ میں کی جا سکے۔ انہوں نے تجویز کیا کہ ازخود نوٹس کو بھی محدود کیا جائے کہ عدالت بار بار از خود نوٹس نہ لے اور صرف اہم ایشوز پر ہی ازخود نوٹس لیا جائے، آپ آئینی تبدیلی لے آئیں کہ عدالت از خود نوٹس کا استعمال کر سکتی ہے لیکن ذمہ داری کے ساتھ، پٹیشن صرف وہی سامنے آنی چاہیے جس پر پہلے جج صاحبان بحث کر کے فیصلہ کریں کہ یہ پٹیشن بنتی ہے یا نہیں، اس سے عدالتوں پر بوجھ کافی کم ہو گا۔

ہمارا پولیس کا نظام فرسودہ ہے، پولیس کا 1934 ء کا ایکٹ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر تاج حیدر کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عدالت کی زبان اردو ہونی چاہیے لیکن یہ آہستہ آہستہ ہو گا۔ ملک میں جب تک عوامی جمہوریت نہیں آئے گی مشکلات میں کمی نہیں آئے گی۔ اعظم سواتی نے سوال کیا کہ ہم امریکہ کا نظام انصاف لا سکتے ہیں جہاں دونوں پارٹیوں کے وکیل مل بیٹھ کر مسئلہ حل کرتے اور پھر اگر ضروری ہو تو عدالت میں جاتے ہیں۔ ایس ایم ظفر نے تجویز کیا کہ فوجداری کیسز میں آسیسر کو واپس لے آئیں۔ سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ قانون سب موجود ہیں، مسئلہ ان پر عملدرآمد کا ہے۔ قبل ازیں سیکرٹری قانون و انصاف نے کمیٹی کو بریفنگ بھی دی۔

متعلقہ عنوان :