پنجاب میں 2003 کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں 1300لوگ چل بسے

جمعرات 20 اگست 2015 18:14

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 20 اگست۔2015ء) ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب میں دہشت گردی سے 2003 سے 2015 تک تقریباً 1300 لوگ اپنی زندگیاں گنوا بیٹھے اور 3500 ڈھانچے تباہ ہوئے ۔ رپورٹ کے مطابق پنجاب کے مختلف شہروں میں 2009 کے دوران دہشت گرد کے 19 حملے ہوئے جس میں تین سو لوگ مارے گےء اور 900 زخمی ہوئے ۔ باقی سالوں کے مقابلے میں 2006 پرامن سال رہا ۔

پورے سال میں کوئی بھی دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ نہیں آیا ۔ اسی طرح 2003 ، 2005 ، 2012 ، 2013 میں باقی سالوں کی نسبت دہشت گردی کے واقعات میں کمی رہی تاہم اس دوران 15 لوگ مارے گئے اور 40 کے قریب زخمی ہوئے ۔ 2007 میں دہشت گردوں نے 12 کھلاڑیوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جس میں 286 لوگ اپنی زندگیاں گنوا بیٹھے اور 710 لوگ زخمی ہوئے ۔2007 میں 10 سیمپ بلاسٹ حملے ہوئے جس میں 150 معصوم لوگ مارے گئے ۔

(جاری ہے)

2015 میں 50 کے ققریب لوگ مارے گئے جس میں ہوم منسٹر پنجاب بھی شامل ہیں اس سال میں 6 بڑے دہشتگردی کے واقعات ہوئے جس میں سے تین صرف لاہور میں ہوئے ایک راولپنڈی اور سرگودھا ، اٹک ، یوحانہ آباد اور اٹک خوفناک دہشت گردی کے واقع میں 40 معصوم لوگ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ 2014 میں 4 خودکش حملے ہوئے جس میں 83 لوگ مارے گئے ۔ 200 زخمی ہوئے ۔ 17 دسمبر 2013 میں راولپنڈی گریسی لائن دہشت گردی کے حملے میں 5 لوگ مارے گئے ۔

16 اگست 2012 کو جب کامرہ پ ایف بیس پر حملہ ہوا تو 2 سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے ۔ 9 حملہ آور دہشت گرد بھی مارے گئے ۔ 2011 میں تین دہشت گردی کے حملے ہوئے جس میں 60 سے زیادہ لوگ مار گئے ۔ 25 جنوری کو لاہور اردو بازار میں حملہ ہوا ۔ تین اپریل کو ڈی جی خان میں ، 13 جون کو اسلام آباد میں تقریباً 41 لوگ مارے گئے اور 100 سے زیادہ زخمی ہوئے جب خودکش حملہ آور نے صوفی سینٹ سخی سرور کے مزار پر حملہ کیا ۔

2010 میں 6 دہشت گردی کے واقعات ہوئے جس میں 260 لوگ مارے گئے ۔ دہشت گردوں نے پانچ مرتبہ دہشت گردی کا نشانہ بنایا جس میں 8 مارچ ، 12 مارچ ، 28 مئی ، یکم ستمبر اس کے علاوہ ایک حملہ 18 جولائی کو اٹک میں کیا ۔ 60 سے زیادہ لوگ مارے گئے ۔ جس میں 8 فوجی اہلکار شامل ہیں اور 95 عبادت گاہوں کو عبادت کے دوران قتل کیا گیا 92 زخمی ہوئے ۔ 2009 میں تقریباً 33 لوگ مارے گئے دہشت گردی نے ڈی جی خان امام بارگاہ کے باہر لوگوں کے ہجوم میں دہشت گردی کا نشانہ بنایا ۔

16 مارچ کو راولپنڈی پیر ودھائی حملے میں 15 لوگ مارے گئے ۔ چار اپریل کو چکوال امام بار گاہ پر حملہ کیا گیا اور 25 لوگ ہلاک ہوئے ۔ 27 مئی کو 28 لوگ مارے گئے جب لاہور سی سی پی او اور آئی ایس آئی کے دفتر پر حملہ ہوا ۔ دو نومبر کو بابو صابو پولیس چیک پوسٹ پر حملے میں 36 لوگ مارے گئے جس میں بچے اور دو خواتین بھی شامل ہیں ۔علامہ اقبال ٹاؤن لاہور مون مارکیٹ میں عوام کے ہجوم پر دہشت گردی نے حملہ کیا جس میں 47 لوگ مارے گئے اور 100 سے زائد زخمی ہوئے ۔

7 دسمبر کو ڈی جی خان میں ذوالفقار خان کھوسہ کے گھر کے باہر لوگ مارے گئے دہشت گردوں نے بم ایک کار میں نصب کیا ہوا تھا ۔ 2008 کے دوران تقریباً 12 دہشت گردی کے حملے ہوئے جس میں تقریباً 286 لوگ مارے گئے ۔ دہشت گردوں نے یکم جنوری کو لاہور میں نشانہ بنایا پھر 4 فروری کو راولپنڈی این ایل سی ، جی ایچ کیو ، 25 فروری کو آرمی بیس کو نشانہ بنایا ۔ چار مارچ کو لاہور میں پاکستان نیوی وار کالج ، 11 مارچ کو ایف آئی اے کے ہیڈ کوارٹر کو ،دو جون کو ڈینش ایمبسی چھ جولائی کو اسلام آباد میلوڈی مارکیٹ ، 13 اگست علامہ اقبال ٹاؤن ، 21 اگست کو واہ کینٹ ، 20 ستمبر کو میرٹ ہوٹل ، 6 اکتوبر کو سکھر اور 9 اکتوبر کو اسلام آباد پولیس لائن ، واہ کینٹ 2007 میں تقریباً 153 لوگ اپنی زندگی کی بازی ہار گئے اور 400 زخمی ہوئے ہیں اس سال کے دوران دہشت گردی کے 10 بڑے حملے ہوئے ۔

دہشت گردوں نے 26 جنوری کو اسلام آباد میریٹ ہوٹل کو اپنا نشانہ بنایا ۔ 17 جولائی کو اسلام آباد کے ایک ریسٹورنٹ کو ، 4 ستمبر کو راجہ بازار راولپنڈی ، 30 اکتوبر راولپنڈی ، 24 نومبر کو فیصل آباد اور سرگودھا ، 10 دسمبر کو کامرہ اور 27 دسمبر کو لیاقت باغ راولپنڈی تقریباً 32 لوگ مارے گئے ۔بشمول پی پی پی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو کے 2004 میں 46 سے زیادہ لوگ مارے گئے ۔ مختلف چار دہشت گردی کے حملے ہوئے جس میں راولپنڈی ، سیٹلائٹ ٹاؤن ، اٹک ، سیالکوٹ ، موچی گیٹ لاہور ، سیالکوٹ اہل تشیع کی مسجد میں تقریباً 32 لوگ مارے گئے اور 75 سے زیادہ زخمی ہوئے

متعلقہ عنوان :