جون 2014ء میں ٹیسٹ انجینئرنگ کارپوریشن میں 1536 ملین روپے کا نقصان ہوا ، 1994-95ء میں یہ نقصان 1344 ملین تھا ، پچھلے دو سالوں میں ایس ای سی پی میں کوئی بھرتی نہیں ہوئی ، جون 1997ء میں یہ نقصان 1237 ملین تھا

قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں آڈٹ حکام کاانکشاف جب آپ کو پتہ تھا کہ بیمار یونٹس ہیں تو کیوں چلایا جاتا ہے ، 15 سال پہلے کہا گیا رپورٹ پیش کریں مگر ابھی تک رپورٹ پیش نہیں کی گئی، کمیٹی کااظہار برہمی ،سیکرٹری صنعت و پیداوار نے معافی مانگ لی

جمعرات 20 اگست 2015 20:08

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 20 اگست۔2015ء ) قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں آڈٹ حکام نے انکشاف کیا ہے کہ جون 2014ء میں ٹیسٹ انجینئرنگ کارپوریشن میں 1536 ملین روپے کا نقصان ہوا ، 1994-95ء میں یہ نقصان 1344 ملین تھا ، پچھلے دو سالوں میں ایس ای سی پی میں کوئی بھرتی نہیں ہوئی ، جون 1997ء میں یہ نقصان 1237 ملین تھا ، کمیٹی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب آپ کو پتہ تھا کہ بیمار یونٹس ہیں تو کیوں چلایا جاتا ہے ، 15 سال پہلے کہا گیا رپورٹ پیش کریں مگر ابھی تک رپورٹ پیش نہیں کی گئی ، سیکرٹری صنعت و پیداوار نے معافی مانگی جس پر کمیٹی نے کہا کہ آپ مانیٹرنگ کررہے ہیں تو نقصان کیسے ہوا ، جب نقصان ہوتا ہے تو مشینیں کیوں چلائی جاتی ہے ، آپ کے پاس ریکارڈ نہیں ہے ، تیاری آپ کی نہیں ، آپ ایک مہینے میں اس پر تیاری کرکے آئیں ۔

(جاری ہے)

جمعرات کو قومی اسمبلی کی پی اے سی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس یہاں پارلیمنٹ ہاؤس میں کنوینئر کمیٹی رانا محمد افضال کی زیر صدارت ہوا ۔ اجلاس میں وزارت پانی و بجلی وسائل ، وزارت صنعت و پیداوار اور وزارت کامرس کی آڈٹ رپورٹس مالی سال 1996-97ء پیش کی گئیں ، وزقارت پانی بجلی کے تمام پیراز کو نمٹا دیا گیا مگر وزارت صنعت و پیداوار کی آڈٹ رپورٹ میں آڈٹ حکام کی جانب سے انکشاف ہوا کہ جون 2014ء میں ٹیسٹ انجینئرنگ کارپوریشن مین 1536 ملین روپے نقصان ہوا ، 1994-95ء میں یہ نقصان 1344 ملین تھا ، 1997ء میں 1237ء ملین تھا ۔

آڈٹ حکام نے یہ بھی کہا کہ اس پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے 15 سال قبل رپورٹ مانگی تھی مگر اب تک کوئی رپورٹ پیش نہیں کی گئی ۔ اس پر کمیٹی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب آپ کو پتہ تھا کہ نقصان ہورہا ہے تو کیوں بیمار مشینوں کو چلایا گیا ۔ وزارت جب اسے مانیٹر کررہی تھی تو نقصان کیسے ہوا ، اتنے بڑے نقصان کی رپورٹ پیش نہ کرنا غفلت ہے جس پر سیکرٹری صنعت و پیداوار عارف عظیم نے کمیٹی سے معافی مانگی جس پر کمیٹی نے کہا کہ 1 مہنے میں اس پر تیاری کرکے آئین ، کمیٹی نے ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس کے حوالے سے آڈٹ رپورٹ کے جواب میں کہا کہ پی اے سی نے ہدایت کی تھی کہ ذمہ داروں کا تعین کیا جائے مگر ابھی تک تعین نہیں کیا گیا ، 1 مہینے کے اندر ذمہ داروں کا تعین کرکے رپورٹ پی اے سی کو پیش کی جائے ۔

آڈٹ حکام کی جانب سے امریکہ میں ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ منسٹر کے بند ہونے سے 2 کروڑ 56 لاکھ 34 ہزار روپے کے قومی خزانے کو نقصان کا بھی انکشاف کیا ، 1983ء میں بننے والا ادارہ جون 1991ء میں بند ہوا مگر اس کے اخراجات 1994ء تک جاری رہے جس پر کمیٹی نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ناقابل یقین بات ہے کہ وزارت کے لوگوں کے وہاں ہوتے ہوئے نقصان ہورہا ہے ، وزارت بھی اس میں ملوث ہے ۔

1 مہینہ کا وقت ہے اس پر انکوائری کرکے کمیٹی کو رپورٹ پیش کی جائے ۔ منسٹری آف کامرس کی آڈٹ رپورٹ 1996-97ء کے حوالے سے کمیٹی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 20 ہزار پاؤنڈ جو کہ پاکستانی 15 لاکھ 13 ہزار 728 روپے بنتے ہیں بغیر کسی ریکارڈ کے کیوں جاری کیے گئے ۔ ان پیسوں کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے کہ یہ کہاں خرچ ہوئے جس پر سیکرٹری کامرس نے کہا کہ ہمارے پاس پیسے ریلیز ہونے کا ریکارڈ ہے لیکن خرچ کہاں ہوئے اس کا ریکارڈ نہیں ، یہ پیسے لندن میں کمرشل کونسلر کے اکاؤنٹ میں بھیجے گئے تھے چائلڈ لیبر کے حوالے سے سیمینار کیلئے اب اس پر اخراجات کی تفصیل فراہم نہیں کی گئی ۔

کمیٹی نے ہدایت کی کہ ہائی کمیشن سے ان پیسوں کو ریکور کیا جائے اور اس بات کی انکوائری کی جائے کہ سرکاری اکاؤنٹ سے ذاتی اکاؤنٹ میں کیسے ٹرانسفر ہوئے ۔ کمیٹی نے کہا کہ اگر برطانیہ میں اس طرح بیقاعدگیاں ہورہی تو دوسرے ممالک کا کیا حال ہوگا تمام کاموں کی ماہانہ بنیادوں پر رپورٹ آئی ہے مگھر یہاں 20 سال پرانے معاملات پر بات چیت ہورہی ہے ، پی اے سی کی ہدایات کو مانا نہیں جاتا ۔