پاکستان کا مذاکرات منسوخ کرنے پر عالمی برادری اور خارجہ امور کے ماہرین سے بھارتی رویہ کا نوٹس لینے کا مطالبہ

ہفتہ 22 اگست 2015 15:18

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 22 اگست۔2015ء ) پاکستان نے مذاکرات منسوخ کرنے پر عالمی برادری اور خارجہ امور کے ماہرین سے بھارتی رویہ کا نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بھارتی بدنام ایجنسی را کے ملوث ہونے کے ثبوت بھارتی وزیراعظم اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو پیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔یہ اعلان وزیراعظم کے خارجہ امور اور قومی سلامتی کے بارے میں مشیر سرتاج عزیز نے ہفتہ کو یہاں ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں کیا اور وہ ڈوزیئر بھی دکھایا جو اس حوالے تیار کیا گیا ہے اور پیش کیا جائے گا۔

اس موقع پر سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ ہم نے بھارت سے مذاکرات کے لئے کوئی شرط نہیں یہ بھارت ہے جس نے حریت رہنماؤں نے ملاقات نہ کرنے کا پہلے مشورہ دیا اور بعد میں مذاکرات ملتوی کر دیئے جبکہ مل بیٹھ کر ہی معاملات حل کرسکتے تھے، میں آج بھی بھارت جانے کے لئے تیار ہوں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ پہلے بھی بھارت نے ہی خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر ہونے والی ملاقات منسوخ کی تھی اور اب وزراء کی سطح پر ملاقات کو منسوخ کیا ہے عالمی برادری کو اس کا نوٹس لینا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا موقف واضح ہے اور ہم سب سمجھتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر ہی سب سے اہم معاملہ ہے اور پوری پاکستانی قوم کشمیریوں کی اخلاقی سیاسی اور سفارتی حمایت کرتی ہے کیونکہ وہ حق خودارادیت کی جدوجہد کررہے ہیں۔سرتاج عزیز نے کہا کہ اوفا میں جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں دونوں ملکوں نے تمام امو رپر بات چیت پر اتفاق کیا تھا اور اب بھارت ہی ہے جو اس سے پیچھے ہٹا ہے، ہم تو تمام امو رپر آج بھی بات چیت کے لئے تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس دورے میں کشمیر پر تفصیلی بات نہیں ہو سکتی تھی، مگر ہم چاہتے تھے کہ مختلف امور پر بات چیت کے لئے کوئی طریق کار طے ہوجائے اور ان پر بات چیت ہو سکے گی تاہم اس دورے سے ہمیں بھی کسی بریک تھرو کی توقع نہیں تھی، ماہی گیر رہا کریں،

ایل او سی پر صورتحال بہتر بنائیں،اگر ہم اس کے لئے کسی پروگرام پر بات کر سکتے تھے۔انہوں نے کہا کہ یہ بات حیرت انگیز ہے کہ بھارت حقیقت کو تسلیم نہیں کررہا اور وہ کشمیریوں کو ان کے حقوق دینے پر بھی تیار نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ را کی پاکستان میں مداخلت اور گڑ بڑ میں ملوث ہونے کے بارے میں ہم نے ایک ڈوزیئر تیار کیا ہے اور وہ دکھاتے ہوئے کہا کہ ان مذاکرات میں اسے پیش کیا جاتا لیکن اگر یہ منسوخ ہوتے ہیں تو پھر آئندہ ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مو ن کو یہ ڈوزیئر پیش کیا جائے گا۔

ایک اور سوال انہوں نے کہا کہ سرکاری طو رپر مذاکرات منسوخ نہیں ہوئے توقع ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی آج شام کو پریس کانفرنس کے بعد صورتحال بہتر ہوگی۔انہوں نے کہا کہ ایک ماہ میں 70سے زائد اور دو ماہ سے 100سے زائد بار لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر بھارت کی طرف سے جنگ بندی کی خلاف ورزیاں کی گئی ہیں۔سرتاج عزیز نے کہا کہ اگر کشمیر کا مسئلہ نہیں تو کشمیری کیوں حق خود ارادیت کی جدوجہد کررہے ہیں اور بھارت کیوں ان کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور وہاں لاکھوں بھارتی فوجی کس لئے موجود ہیں۔

بھارت سے مسئلہ کشمیر کے بغیر سنجیدہ مذاکرات ممکن نہیں ہو سکتے۔انہوں نے کہا کہ بھارت پاکستان کو دباؤ میں رکھنا اور اپنی شرائط پر ہی بات کرنا چاہتے ہیں مگر یہ ہمارے لئے ممکن نہیں ، ہماری پوری قوم کے جذبات یہی ہیں، توقع ہے بھارتی حکمران جلد سمجھ جائیں گے کہ ان کی شرائط پر پاکستان کشمیر کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔بھارت سے ہم نے قومی سلامتی مشیروں کی ملاقات کے بارے میں 23اور 24اگست کی تاریخ طے ہونے کے بعد ایجنڈا مانگا تھا مگر انہوں نے لیت و لعل سے کام لیا، ہم اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل او ردیگر فورمز پر معاملہ اٹھاتے رہیں گے اور اب تو زیادہ تیزی سے معاملہ اٹھانے کی ضرورت ہے کیونکہ کشمیر کے اندر بڑی تبدیلیاں لائی جارہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 20سال سے یہ روایت ہے کہ پاکستانی رہنماؤں کی کشمیریوں سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں مگر آج شبیر شاہ کو نئی دہلی پہنچنے پر گرفتار کر لیا گیا جو افسوس ناک ہے۔اس موقع پر سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے کہا کہ کنٹرول لائن پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا معاملہ سیکٹر کمانڈر ، فلیگ میٹنگز اور مذاکرات میں یہ معاملہ اٹھایا ہے اور اس معاملہ پر بات چیت ہوتی رہی ہے ، ہماری فوجیں صرف دفاع میں ہی کارروائی کرتی ہیں اور کبھی بھی خلاف ورزی نہیں کرتیں۔

واضح رہے کہ پروگرام کے مطابق سرتاج عزیز کو کل 23اگست کو بھارت جانا تھا اور اپنے بھارتی ہم منصب سے ملاقات کرنی تھی جس کا فیصلہ دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کی روسی شہر اوفا میں شنگھائی تعاون تنظیم کے موقع پر ہونے والی ملاقات میں کیا گیا تھا۔

متعلقہ عنوان :